کیا عمران نئے آرمی چیف کا تقرر عدالت لے جانے والے ہیں؟


سابق وزیراعظم عمران خان نے نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر مزید گند ڈالنے اور تنازعہ بڑھانے کیلئے عدالت جانے کا فیصلہ کیا ہے تا کہ کرپشن الزامات کا سامنا کرنے والے وزیراعظم شہباز شریف کے ہاتھوں نئے فوجی سربراہ کی تقرری کو رکوایا جا سکے۔ سینئر صحافی انصار عباسی کے مطابق عمران خان نے عدالت جانے کی آپشن پر پارٹی قیادت سے صلاح مشورہ کیا ہے اور اس سلسلے میں پیش رفت جلد متوقع ہے۔ لیکن رابطہ کرنے پر فواد چوہدری نے لا علمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس اس حوالے سے کوئی حتمی اطلاع نہیں ہے۔

دوسری جانب انصار عباسی کا کہنا ہے کہ عمران خان نہیں چاہتے کہ شہباز شریف کی زیر قیادت حکمران اتحاد نومبر میں جنرل قمر باجوہ کی ریٹائرمنٹ پر نئے آرمی چیف کا تقرر کرے۔ اسی لئے انہوں نے یہ تجویز دی تھی کہ نئے آرمی چیف کا تقرر اگلے انتخابات کے بعد نئی حکومت آنے تک موخر کر دیا جائے۔ لیکن عمران یہ تجویز دیتے ہوئے بھول گئے کہ آئین میں ایسی کوئی گنجائش نہیں خصوصاً جب مرکز میں ایک منتخب حکومت موجود ہو۔ یاد رہے کہ آئین کے مطابق فوجی سربراہان کی تقرری وزیر اعظم کا صوابدیدی اختیار ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اسی صوابدیدی اختیار کے تحت آرمی چیف لگایا تھا۔ لیکن جب 2019 میں جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ قریب آئی اور عمران خان کو نیا آرمی چیف لگانے کا موقع ملا تو انہوں نے جنرل باجوہ کے عہدے میں تین سال کی توسیع کر دی۔

عمران خان کا موقف یہ ہے کہ کرپشن الزامات کا سامنا کرنے والے شہباز شریف کو اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ایک سزا یافتہ مجرم نواز شریف کے مشورے سے اگلے آرمی چیف کا انتخاب کریں۔ اسی لئے انہوں نے یہ تجویز دی تھی کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی اگلے الیکشن تک موخر کر دی جائے تاکہ وہ جیتنے کے بعد اقتدار میں آکر خود یہ اہم ترین فیصلہ کریں۔ تاہم حکومتی حلقوں کا اصرار ہے کہ آئین اور قانون میں شہباز شریف پر ایسی کوئی قدغن عائد نہیں کیونکہ وہ ملزم تو ہیں لیکن مجرم نہیں، ورنہ تو وہ وزیراعظم بننے کے لیے بھی اہل نہ ہوتے۔ یاد رہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف نئے آرمی چیف کا انتخاب پارٹی قائد میاں نواز شریف کے مشورے سے کریں گے۔

تاہم، جب فواد چوہدری سے پوچھا گیا کہ کیا پی ٹی آئی نومبر میں شہباز شریف کے ذریعے آرمی چیف کے تقرر کو روکنے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے پر غور کر رہی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ان کے پاس ابھی کوئی کنفرم معلومات نہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ عمران نے آرمی چیف کے تقرر کو روکنے کیلئے معاملہ اپنی پارٹی کے ماہرین قانون کو بھیج دیا ہے، تو فواد نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ لیکن انہوں نے کہا کہ ن لیگی رہنماؤں نے حال ہی میں بیان دیا تھا کہ آرمی چیف کے تقرر کیلئے نواز شریف سے مشورہ کیا جائے گا؛ اس پر پارٹی اجلاس میں بحث ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ان بیانات کے تناظر میں پی ٹی آئی رہنماؤں نے جوابی بیانات دیے تھے۔ اپنے حالیہ جلسے میں عمران خان نے بھی متعدد مرتبہ کہا ہے کہ کرپشن کے ملزم کو ایک سزا یافتہ مجرم کے مشورے سے نیا آرمی چیف لگانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ دیکھنا ماہرین قانون کا کام ہے کہ قانونی سطح پر اس معاملے سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے لیکن نئے آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ آئندہ الیکشن اور نئی حکومت کے آنے تک موخر کرنا چاہئے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ چند ہفتے قبل تک عمران خان کو موجودہ حکومت سے آرمی چیف کے تقرر پر کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ اپوزیشن کا اس تقرر سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ یہ کام وزیراعظم اور حکومت وقت کا ہے۔ سینئر صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ ایسے میں یہ سمجھ نہیں آتی کہ عمران خان نے اس معاملے پر اپنی رائے کیوں تبدیل کی اور اسے اپنے سیاسی ایجنڈے کا حصہ کیوں بنا لیا۔ خیال رہے کہ فوجی ترجمان نے عمران کی جانب سے آرمی چیف کی تقرری کو متنازع بنانے پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔

دوسری جانب حکومت پرعزم ہے کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرے گی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نومبر میں آرمی چیف کا تقرر کریں گے۔ اگرچہ عمران نئے چیف کے تقرر میں تاخیر چاہتے ہیں تاہم موجودہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نومبر 2022ء کے بعد کام نہیں کرنا چاہتے۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران خان جتنا مرضی شور مچاتے رہیں لیکن آئینی اور قانونی طور پر وہ وزیر اعظم شہباز شریف کو جنرل قمر باجوہ کی ریٹائرمنٹ سے پہلے نیا آرمی چیف مقرر کرنے سے نہیں روک سکتے۔

Related Articles

Back to top button