کیا فوج واقعی سیاسی پروجیکٹس بنانا بند کر دے گی؟

فوجی قیادت کی جانب سے مکمل طور پر غیرسیاسی ہو جانے کے اعلان کے بعد بھی یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے واقعی نت نئے سیاسی پراجیکٹس کھڑے کرنے کا سلسلہ بند ہو جائے گا؟ معروف صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس فوجی اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی پروجیکٹس پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ فروری 2021 میں فوجی قیادت نے جس پراجیکٹ عمران خان کو لپیٹنے کا فیصلہ کیا تھا اسکا آغاز سابق آئی ایس آئی سربراہ جنرل حمید گل نے کیا تھا۔ اپنے تازہ تجزیے میں مظہر عباس کہتے ہیں کہ 1993میں پروجیکٹ عمران کا اجرا کیا گیا جس کا خود عمران کو بھی پتا نہیں تھا۔ اس کی ابتدا 14 اگست 1993 کو ہوئی جب غیر سیاسی لوگوں کی جانب سے ایک جلوس نکالا گیا۔ آپ سب کو عمران خان، عبدالستار ایدھی اور جنرل حمید گل والا واقعہ یاد ہو گا۔ ایدھی صاحب تو لندن چلے گئے جبکہ عمران خان دھمکی کے بعد پیچھے ہٹ گے۔ یوں ھمید گل کا پروجیکٹ ناکام ہو گیا۔ بعد میں عمران نے 1996 میں اپنی جماعت تحریک انصاف بنائی جو ابتدا میں زیادہ کامیاب نہ ہوئی کیونکہ اس وقت پروجیکٹ مسلم لیگ (ق) پر کام ہو رہا تھا۔ خان صاحب سیاسی طور پر ناسمجھ تھے تبھی انہوں نے جنرل مشرف کا ساتھ دیا مگر جب 2000 میں نواز شریف ملک چھوڑ گئے اور گجرات کے چوہدری برادران مضبوط ہو گئے تو عمران جنرل مشرف سے ناراض ہو گئے۔

مظہر عباس بتاتے ہیں کہ 2011 کے بعد عمران خان پر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بھرپور توجہ دی گئی اور بہت سے لوگوں کو مختلف جماعتوں سے پی ٹی آئی میں بھیجا گیا۔ کپتان کو خود بھی بڑی مقبولیت ملی اور 2013 میں وہ تیسری سیاسی قوت بن گئے۔ آگے کی کہانی کچھ تو مونس الٰہی نے سنا دی اور باقی چوہدری پرویز الٰہی یا پرانے پی ٹی آئی کے لوگوں سے پوچھ لیں۔

پاکستان کی سیاست میں کئی تجربات ہوئے اور نئے نئے پروجیکٹ لائے گئے مختلف سیاسی جماعتوں اور گروپس بنانے کا اصل مقصد تقسیم در تقسیم پیدا کرنا تھا اور یوں ملکی سیاست بے معنی اور جمہوریت کمزور ہوتی چلی گئی۔ مظہر عباس کا کہنا ہے کہ اقتدار سے برطرفی کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان کی فوج مخالف تحریک کا کوئی اور نتیجہ نکلا ہو یا نہیں مگر بہت سے چہرے بے نقاب ہو گئے اور ثابت ہوا کہ 2018 کے الیکشن میں کیا ہوا تھا اور اس کے بعد سے آج تک کیا ہو رہا ہے۔ کچھ ایسی ہی  شرمناک کہانیاں 1990 کے الیکشن کے بعد بھی کھلی تھیں جب مہران بینک سکینڈل سامنے آیا تھا اور پتہ چلا تھا کہ کس طرح ISI نے بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کو شکست دینے کے لیے اسلامی جمہوری اتحاد سے منسلک سیاست دانوں اور صحافیوں میں رقوم تقسیم کیں اور الیکشن نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ ویسے غور کریں تو اندازہ لگانا مشکل نہ ہو گا کہ یہاں ایک جماعت کو نیچا دکھانے کیلئے دوسری جماعت کو کھڑا کیا جاتا ہے۔ بائیں بازو کی تین جماعتوں کو اسی طرح ختم کر دیا گیا۔ 1950 کی دہائی میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگائی گئی، 1954 میں جگتو فرنٹ کی حکومت توڑ دی گئی اور 1970 کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا کر بائیں بازو کی سیاست کو ہمیشہ کیلئے دفن کرنے کی کوشش کی گئی۔ جب یحیی دور میں مشرقی پاکستان ہاتھ سے نکل گیا تو بھٹو کی بڑھتی ہوئی مقبولیت دیکھ کر پیپلز پارٹی میں طاقتور جاگیرداروں اور وڈیروں کو گھسا دیا گیا تا کہ پارٹی پر قبضہ کیا جا سکے۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ اس کے بعد 1977کا الیکشن آیا تو فوج نے پروجیکٹ پی این اے لانچ کر دیا جسے پاکستان نیشنل الائنس یا قومی اتحاد بھی کہا جاتا ہے۔ پھر ضیا نے مارشل لا لگا کر بھٹو کو پھانسی دے دی۔ اسکے بعد پی این اے سے بھی پیچھا چھڑانے کی باتیں ہونے لگیں۔ پھر دو نئے پروجیکٹ سامنے آئے۔ پنجاب میں مسلم لیگ اور سندھ میں ایم کیو ایم۔ نیا پروجیکٹ لانے والوں کے نزدیک تب سب سے بڑا مسلہ بھٹو کا سحر توڑنا اور اسکی پی پی پی کو ختم کرنا تھا۔ چنانچہ پنجاب میں نواز شریف پر ہاتھ رکھا گیا اور سندھ میں مہاجر قومی موومنٹ تشکیل دی گئی۔ بعد میں جب سندھ اور پنجاب میں یہ دونوں پودے تناور درخت بن گئے توانکی شاخیں کاٹنے کا کام شروع ہوا۔ سندھ میں ایم کیو ایم کے کئی دھڑے بنائے گئے اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو توڑنے کا عمل شروع ہوا۔

پہلے سیاست دانوں کو کرپشن پر لگایا گیا اور بعد میں احتساب کے نام پر اچھو اور بروں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس سے بھی بات نہ بنی تو کراچی میں الطاف حسین کو پہلے مضبوط کیا گیا پھر جب وہ بہت زیادہ طاقتور ہوگئے تو انکی جماعت کے بھی نئے نئے گروپ بنا دیئے گئے۔ پروجیکٹ الطاف کے بارے میں اطلاع ہے کہ اب اسے مکمل بند کردیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ مائنس الطاف فارمولے پر کام جاری ہے  مگر شرط یہ ہے کہ نہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی ہو، اور نہ ہی سیکٹر اور یونٹ آفسز ہوں۔ مہاجر پارٹی کے تمام دھڑوں کو پیغام دیا گیا ہے کہ ایک ہوجائو اور دوسری جماعتوں کی طرح اپنا صدر اور عہدے دار نامزد کرو۔ یہ تھی چند سیاسی پروجیکٹس کی مختصر کہانی۔ مظہر عباس یہ کہانی ختم کرتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ اہم ترین سوال یہ ہے کہ فوجی قیادت کی جانب سے مکمل طور پر غیرسیاسی ہونے کے اعلان کے بعد اسکی جانب سے نت نئے پراجیکٹس کھڑے کرنے کا سلسلہ بند ہوگا یا نہیں؟

Related Articles

Back to top button