کیا مسلم لیگ ق اپنا سیاسی وجود برقرار رکھ پائے گی؟


دہائیوں سے پنجاب کی سیاست پر راج کرنے والے چودھری خاندان کے دو چچا زاد بھائیوں پرویز الہی اور شجاعت حسین کی سیاسی راہیں بالآخر جدا ہو گئی ہیں جس کے بعد قاف لیگ کا مستقبل بھی خطرے میں پڑ گیا ہے اور یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا یہ اپنا وجود برقرار رکھ پائے گی یا نہیں؟

گجرات کے چوہدریوں میں اختلاف کی بنیاد تب پڑی جب چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے کزن چوہدری شجاعت حسین سے دغا کرتے ہوئے اتحادی جماعتوں کو چھوڑ کر اچانک عمران خان کے ساتھ ہاتھ ملانے کا فیصلہ کیا تاکہ وزیراعلی پنجاب بن سکیں۔ عمران خان کی اقتدار سے برطرفی کے بعد چودھری شجاعت کے ساتھیوں نے شہباز شریف کو بطور وزیراعظم ووٹ دیا تھا۔ وزیر اعلی پنجاب کے الیکشن میں پرویز الہی کو پوری امید تھی کہ شجاعت حسین حمزہ شہباز کی بجائے انہیں ووٹ دلوائیں گے۔ لیکن ایسا ہو سکا۔ چوہدری شجاعت نے یہ موقف اپنایا کہ پرویز الہی ان کے امیدوار تو بن سکتے ہیں لیکن عمران خان کے نہیں۔ یوں وزارت اعلیٰ کے انتخاب پر جنم کھڑے ہونے والے بحران نے چوہدری ظہور الٰہی کے خانوادے کی نہ صرف سیاسی راہیں جدا کر دی ہیں بلکہ ذاتی تعلقات میں تلخی بھی بھر دی ہے جو اب اگلی نسلوں میں بھی منتقل ہوگئی ہے۔

پنجاب میں برادریوں اور دھڑوں کی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافی ماجد نظامی نے اردو نیوز کو بتایا کہ چودھری پرویز الٰہی کی جانب سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے پی ڈی ایم کے بجائے تحریک انصاف کا امیدوار بننے کے فیصلے نے ان کے درمیان اختلافات کو انتہا تک پہنچا دیا تھا۔ ان کے خیال میں دیگر وجوہات کے علاوہ چوہدری خاندان کی تیسری نسل کے نوجوان سیاستدانوں مونس الہی اور سالک حسین کے درمیان سیاسی اختلافات بھی خاندان میں دراڑ کا باعث بنے۔ گجرات کے علاقے ’نت وڑائچ‘ سے تعلق رکھنے والے چوہدری ظہور الٰہی کا خاندان گذشتہ چھ دہائیوں سے اقتدار اور سیاست کا حصہ چلا آ رہا ہے، ظہور الہٰی کے بیٹے اور مختصر مدت کے لیے وزیراعظم رہنے والے چودھری شجاعت حسین مسلم لیگ ق کے سربراہ ہیں، چوہدری پرویز الہٰی ان کے تایا چوہدری منظور الہٰی کے بیٹے اور بہنوئی بھی ہیں، اس سے قبل 2002 سے 2008 تک پنجاب کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔

2018 کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ ق نے وفاقی حکومت کی تشکیل میں تحریک انصاف کی حمایت کی، اس کے بدلے میں خواہش اور طلب کے باوجود انہیں پنجاب کے وزارت اعلیٰ نہ مل سکی البتہ پرویزالہٰی پنجاب اسمبلی کے سپیکر منتخب ہو گئے۔

عمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران چوہدری شجاعت حزب اختلاف کے کیمپ میں جبکہ پرویز الہٰی عمران خان کی حمایت میں پیش پیش تھے۔ یہیں سے دونوں میں سیاسی دوریوں اور خاندانی رنجش کا آغاز ہوا۔ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الہٰی نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے سیاسی سفر کا آغاز ایک ساتھ کیا، دونوں تب بھٹو مخالف سیاست کرتے تھے۔

ماضی میں چوہدری شجاعت حسین کے میاں برادران سے سیاسی اختلاف اور ذاتی رنجش کی سب سے بڑی وجہ پرویز الہٰی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ نہ بنانا بنی تھی۔ اسی ردعمل میں انہوں نے صرف پرویز مشرف کی حمایت کی بلکہ اپنی علیحدہ مسلم لیگ بھی قائم کرلی۔ چوہدری خاندان کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ پچھلی کئی دہائیوں سے شجاعت حسین نے ہمیشہ پرویز الٰہی اور ان کی اولاد کو سیاسی طور پر آگے رکھ کر خود کو اور اپنے بیٹوں کو پیچھے رکھا لیکن پرویز الٰہی نے آخری عمر میں شجاعت حسین کو دھوکہ دے کر عمران خان کو اپنا لیڈر بنا لیا۔

ماجد نظامی کے خیال میں شاید خاندان میں اتنے واضح اختلاف کے بعد اب مسلم لیگ قاف کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہو جائے۔ عین ممکن ہے کہ دونوں بھائی اپنے اپنے حمایتیوں سمیت مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں ضم ہو جانے کے بارے میں سوچ بچار کریں، کیونکہ ان کے لیے الگ الگ جماعتیں بنا کر سیاسی طور پر زندہ رہنا بہت مشکل ہو گا۔ مسلم لیگ کی تاریخ بتاتی ہے کہ مختلف ادوار میں اس کے بطن سے مختلف مسلم لیگیں جنم لیتی رہی ہیں، اور پھر حالات کے زیراثر سیاسی منظر نامے سے غائب بھی ہوتی رہیں، لہٰذا اہم سوال یہ یے کہ کیا مسلم لیگ ق اپنا سیاسی وجود برقرار رکھ پائے گی یا کنونشن لیگ جیسے انجام سے دوچار ہو جائے گی۔

Related Articles

Back to top button