کیا نئےعام انتخابات اکتوبر میں منعقد ہونے والے ہیں؟


سینئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا ہے کہ وہ اگلے عام انتخابات اسی برس اکتوبر میں ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں انصار عباسی کہتے ہیں کہ جب عمران کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی تو میں اُس کے خلاف تھا اور اس کی وجہ میں نے بار ہا بیان کی تھی کہ اگر نواز شریف کو غلط طریقے سے نکالا جانا صحیح نہیں تھا تو عمران خان کو غلط طریقے سے نکالا جانا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ تاہم یہ لکھتے ہوئے انصار عباسی بھول گئے کہ نواز شریف کو پانامہ کے نام پر اقامہ کیس میں سپریم کورٹ نے نااہل کیا تھا جبکہ عمران خان کو آئینی اور جمہوری طریقے سے 13 سیاسی جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کیا ۔

انصار عباسی کہتے ہیں کہ میں نے فروری میں لکھا تھا کہ ’’سیاستدان پھر استعمال ہو رہے ہیں؟‘‘ البتہ میں عمران کے بیرونی سازش کے بیانیہ سے متفق نہ پہلے تھا اور نہ ہی اب ہوں۔ میری یہ بھی رائے تھی کہ عمران خان کو پانچ سال پورے کرنے دیں کیوں کہ اگر اُن کو نکالا گیا تو 13 سیاسی جماعتوں پر مبنی اتحادی حکومت سیاسی استحکام نہیں دے سکے گی ، حالات پہلے سے زیادہ خراب ہو جائیں گے اور ہمیں پھر بھی نئے الیکشن کی طرف ہی جانا پڑے گا۔ انصار کہتے ہیں کہ جب موجودہ حکومت قائم ہو گئی اور عمران خان کے پیدا کردہ معاشی مسائل اس کے سامنے آنا شروع ہو گئے تو میری یہ رائے تھی کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے تک نئے الیکشن کا فیصلہ نہ کیا جائے تاکہ پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہونے سے بچ جائے۔تاہم میرا ہمیشہ یہی خیال رہا کہ الیکشن اسی سال ہو سکتے ہیں۔ عمران تو شروع سے ہی نئے الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں وہ آئی ایم ایف کے معاہدہ کا بھی انتظار نہیں کرنا چاہتے۔ جبکہ موجودہ حکومت نے معاشی میدان میں مشکل ترین فیصلہ کیے اور اس بات کا اعادہ بھی کیا کہ الیکشن آئندہ سال اکتوبر میں ہی ہوں گے اور اس سال الیکشن نہیں ہو سکتے۔

انصار عباسی کہتے ہیں کہ پنجاب میں 17 جولائی کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی بڑی کامیابی اور ن لیگ کی شکست نے سیاسی عدم استحکام کومزید بڑھا دیا ہے جس کا بہت بُرا اثر ملکی معیشت پر پڑا اور ڈالر کے مقابلہ میں روپیہ روز بروز گرنا شروع ہو گیا اور آج ایک ڈالر 230 روپے کا ہو چکاہے ۔ معاشی ماہرین ان حالات سے انتہائی پریشان ہیں جبکہ سیاسی عدم استحکام بھی بڑھتا ہی چلا جا رہا جس میں عدالتی فیصلوں اور اُن سے پیدا ہونے والی صورتحال کا بھی کافی کردار ہے۔ انصار کے بقول اسی دوران، میں نے یہ خبر دی کہ اسٹیبلشمنٹ حکومتی اتحاد اور عمران خان کی تحریک انصاف کو ایک ساتھ بٹھا کر سیاسی و معاشی بحران پر فیصلہ کرنے کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہے جس کے لیے سوچ بچار ہو رہا ہے۔ یہ خبر دیتے ہوے میں نے یہ رائے بھی دی کہ اسی سال اکتوبر میں نئے الیکشن بھی ہو سکتے ہیں۔ کچھ صحافی دوستوں نے فوج کے ترجمان کے حوالے سے میری خبر کی تردید کی کوشش بھی کی لیکن میں اس پر کل بھی قائم تھا اور آج بھی قائم ہوں۔ میرے یہ خبر بریک کرنے سے پہلے ن لیگ کے طلال چودھری نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کا نام لیے بغیر کہا کہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کو جلد الیکشن کی طرف مت دھکیلا جائے۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ سیاستدانوں کو سیاسی فیصلے کرنے دیں۔ میری خبر طلال چوہدری کی پریس کانفرنس کے بعد بریک ہوئی اور میں اب بھی سوچ رہا ہوں کہ ان کی اس پریس کانفرنس کا بیک گرائونڈ کیا ہے۔ آیا حکومت کو اس بارے پہلے سے کوئی اطلاع تھی؟بہرحال حکومت اور اس کے اتحادی کہتے ہیں کہ اُنہیں کسی صورت اس سال الیکشن قبول نہیں اور یہ کہ وہ آئندہ سال اکتوبر میں ہی الیکشن کروائیں گے۔

دوسری جانب عمران خان اسی سال الیکشن کروانے کے مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ انصار عباسی کہتے ہیں کہ ایسے میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کیا کرے گی، اور حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی حکمت عملی کیا ہو گی۔ اس سوال کا جواب آنے والے دنوں اور ہفتوں میں واضح ہو جائے گا لیکن میں آج بھی اسی سال اکتوبر نومبر میں الیکشن دیکھ رہا ہوں جس کی بڑی وجہ معاشی عدم استحکام ہے۔

Related Articles

Back to top button