کیا پاکستان کا گرے لسٹ میں رہنے کا کوئی امکان ہے؟

اسلام آباد میں حکومتی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے جرمنی میں ہونے والے حالیہ اجلاس کے بعد اب پاکستان کا گرے لسٹ سے نکلنا یقینی ہے اور صرف ایک رسمی کارروائی ہونا باقی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جیسے ہی ایف اے ٹی ایف کی جائزہ ٹیم پاکستان آئی گی، اسکے فوری بعد پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال کر وائٹ لسٹ میں ڈال دیا جائے گا۔

جہاں حکومتی اراکین اور پاکستانی فوج نے اسے ایک اہم سنگ میل قرار دیا وہیں سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یہ بھی کہا کہ فیٹف کی ٹیم کا دورہ صرف رسمی دورہ ہو گا جس کا مطلب تھا کہ پاکستان کا گرے لسٹ میں سے نکلنا اب طے ہے۔ فیٹف کا اگلا اجلاس اکتوبر میں ہو گا جس میں پاکستان کے گرے لسٹ میں رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ مگر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کا گرے لسٹ میں سے نکلنا یقینی ہو گیا ہے۔

17 جون کو اجلاس کے اختتام پر پریس کانفرنس کے دوران فیٹف کے سربراہ مارکس پلیئا نے کہا تھا کہ ’فیٹف نے پاکستان کے دورے کی سفارش کی ہے تاکہ دیکھا جائے کہ پاکستان کی اصلاحات اپنی جگہ پر موجود ہیں اور مستقبل کے لیے دیرپا ہیں۔‘ ان کے بقول: ’پاکستان کو گرے لسٹ سے تب نکالا جائے گا جب فیٹف ٹیم کا دورہ کامیاب ہو جائے گا۔‘ فیٹف جب بھی کسی ملک کو گرے لسٹ میں ڈالتا ہے اس کے بعد اس ملک کے ساتھ مل کر منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی فنڈنگ سے متعلق نظام میں اصلاحات کے لیے کام شروع کیا جاتا ہے۔

فیٹف ٹیم کے دورہ پاکستان کے حوالے سے فیٹف کے ترجمان نے بتایا ہے کہ ’کسی بھی ملک کو فیٹف مانیٹرنگ سے نکلنے کے لیے ایکشن پلان کے تمام یا تقریباً تمام نکات پر عملدرآمد کرنا ہو گا۔ جب فیٹف یہ تعین کر لیتا ہے ایک ملک نے تمام اصلاحات کر لیں ہیں تو پھر اس ملک کا دورہ کیا جاتا ہے جس میں قانونی، ریگولیٹری اور آپریشنل اصلاحات کے نفاذ کی تصدیق کی جاتی ہے اور یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کیا ان اصلاحات کے دیرپا عملدرآمد کے حوالے سے ضروری سیاسی عزم اور ادارہ جاتی صلاحیت موجود ہے یا نہیں۔ اگر دورے کا نتیجہ مثبت ہوتا ہے تو فیٹف اپنے اگلے اجلاس میں اس ملک کو گرے لسٹ سے نکال دے گا۔‘

فیٹف نے پاکستان سے متعلق اپنے حالیہ اعلامیے میں کہا تھا کہ کرونا کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے فیٹف کی ٹیم جلد از جلد پاکستان کا دورہ کرے گی۔ اگرچہ ابھی تک دوروں کی تاریخ سامنے نہیں آئی مگر فیٹف کے عمومی طریقہ کار پر نظر دوڑائی جائے تو دورے کے دو مہینے کے اندر اندر رپورٹ تیار کی جاتی ہے اور پھر اسے اگلے اجلاس میں پیش کیا جاتا ہے۔ موجودہ صورت حال میں فیٹف کا اگلا اجلاس 16 سے 21 اکتوبر کو ہو گا۔ فیٹف سربراہ نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں اس بات کا اعلان کیا تھا کہ اکتوبر اجلاس میں پاکستان کے معاملے کو دوبارہ دیکھا جائے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ فیٹف ٹیم کا دورہ جولائی یا اگست کے مہینے میں ہو گا۔

فیٹف نے پاکستان کو عملدرآمد کے لیے دو مختلف ایکشن پلان دیے تھے۔ ایک ایکشن پلان کا تعلق منی لانڈرنگ سے ہے اور دوسرے کا تعلق دہشت گردوں کی مالی معاونت سے ہے۔ یہ دونوں پلان 34 نکات پر مشتمل ہیں۔
دو ایکشن پلان ہونے کے وجہ سے فیٹف کی دو ٹیمیں پاکستان کا دورہ کریں گے۔ یہ دونوں ٹیمیں ایک ساتھ ہی پاکستان آئیں گی۔ عمومی طور پر یہ دورے دو ہفتوں پر محیط ہوتے ہیں مگر پاکستان کے کیس میں یہ دورے نسبتاً طویل ہوں گے کیوں کہ پاکستان کا ایکشن پلان وسیع ہے۔ فیٹف کی ٹیمیں حکومت پاکستان کے اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں سے ملاقاتیں کریں گی۔

جب فیٹف کی ٹیمیں پاکستان آئیں گی تو وہ دہشت گردی کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے ہونے والے اقدامات کی تصدیق کریں گی۔ یہاں یہ بات دلچسپ ہے کہ اگر فیٹف کی ٹیم پاکستان میں دوروں سے مطمئن نہیں ہوتی تو پاکستان کو بدستور گرے لسٹ میں رکھے جانے کا فیصلہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ تاہم حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسا ہونے کا اب کوئی امکان نہیں۔

Related Articles

Back to top button