گیس کی قیمت میں اضافے سے کمر توڑ مہنگائی کا خطرہ

حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرتے ہوئے گیس کی قیمتوں میں 16 سے 112 فیصد تک اضافہ کرتے ہوئے صارفین پر 3 کھرب 10 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کی طرف سے قدرتی گیس کی قیمتوں میں اضافے کا اطلاق یکم جنوری سے ہوگا۔ گیس کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کا نیا طوفان آنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ گیس، بجلی کی پیداوار کا ایک بڑا ذریعہ ہے اور صنعتوں کے لیے گیس کے نرخوں میں اضافہ پیداواری لاگت کو بڑھا دے گا۔ تاہم صنعتی شعبہ اس اضافے کو صارفین تک منتقل کر دے گا اور اس کے نتیجے میں آنے والے مہینوں میں مہنگائی مزید بڑھے گی۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے مہنگائی میں یقینی طور پر اضافہ ہوگا کیونکہ توانائی کے باقی تمام ذرائع میں قیمتوں میں پہلے ہی بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔

 

وزیر خزانہ اسحٰاق ڈار کی زیر صدارت اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں گیس کی قیمتوں میں 16سے 112فی صد تک اضافے کی منظوری دی گئی جب کہ سلیبس کی تعداد بھی 6 سے بڑھا کر 10 کردی گئی ہے۔ گیس کی قیمتوں میں اضافہ گھریلو، کمرشل، پاور سیکٹر، کھاد، سیمنٹ انڈسٹری ‘برآمدی صنعتوں اور سی این جی سمیت تمام شعبوں کے لیے کیا گیا ہے۔ای سی سی فیصلوں کے مطابق، 50 کیوبک میٹر تک گیس استعمال کرنے والے گھریلو صارفین اضافے سے مستثنیٰ ہوں گے۔ 100 کیوبک میٹر گیس استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کے لیے قیمت 300 روپے سے بڑھا کر 350 روپے ایم ایم بی ٹی یو کر دی گئی ہے۔دوسو کیوبک میٹر گیس استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کے لیے قیمت میں 32 فی صد اضافہ کیا گیا ہے اور 200 کیو بک میٹر گیس استعمال پر گھریلو صارفین کے لیے قیمت 553 سے بڑھا کر 730 روپے ایم ایم بی ٹی یو کر دی گئی ہےجب کہ 300 کیوبک میٹر تک گیس استعمال کرنے والے صارفین کے لیے قیمت بڑھاکر 1250روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کی گئی ہے ۔وزارتِ پیٹرولیم کے گھر یلو صارفین کے تجویز کردہ نظر ثانی شدہ ریٹس کے مطابق پروٹیکٹڈ صارفین جو 0.25 کیوبک ہیکٹو میٹر گیس استعمال کرتے ہیں ان کے لیے قیمت 121 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو برقرار رکھی گئی ہےاور اضافہ نہیں کیا گیا۔

 

تجزیہ کار اور معاشی ماہر فرحان محمود حکومتی فیصلے کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان میں توانائی کے حصول کے تمام ذرائع اس سے پہلے ہی مہنگے ہوچکے ہیں اور اس وقت تمام ذرائع کی قیمتوں میں گیس کے مقابلہ میں 14 سے 15 گنا تک قیمتیں بڑھ چکی ہیں۔ اس میں لکڑی ہو،فرنس آئل، کیروسین آئل یا دیگر کوئی بھی ذریعہ ان سب کی قیمتیں پہلے ہی بڑھ چکی ہیں۔فرحان محمود کا کہنا تھا کہ اس وقت سب سے زیادہ فرٹیلائزر اور گھریلو صارفین کے لیے قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے، سب سے کم گیس استعمال کرنے والوں کے لیے گیس کی قیمت میں زیادہ اضافہ نہیں کیا گیا۔اُن کا کہنا تھا کہ یہ اضافہ چھ ماہ کے لیے کیا گیا ہے، ماضی میں ہر چھ ماہ بعد گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا تھا لیکن گزشتہ 27 ماہ سے گیس کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوا تھا۔ اس وقت ڈالر کی قیمت میں اضافہ، روپے کی قدر میں کمی کے باعث بہت زیادہ فرق آ چکا تھا۔

 

فرحان محمود کے مطابق حکومت 310 ارب کی اضافی رقم کی توقع کررہی ہے ۔ یہ اضافہ آئی ایم ایف کی بھی شرط تھی کیوں کہ اس کا دباؤ حکومتی کمپنیوں پر ہوتا تھا جسے پورا کرنے کے لیے حکومت سبسڈی دے رہی تھی۔معاشی مشکلات کی وجہ سے حکومت سبسڈی نہیں دے رہی تھی اور کمپنیاں دباؤ میں تھیں۔گردشی قرضے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس اضافے سے گردشی قرضہ میں 70 سے 75 فی صد تک کمی کا امکان ہے کیوں کہ کمپنیوں کے پاس کیش کی کمی تھی اور کمپنیوں کے پاس کیش زیادہ ہونے سے انرجی کمپنیوں اور حکومت کو فائدہ پہنچے گا۔عام آدمی پر اس اضافے سے کتنا فرق پڑے گا؟ اس سوال پر فرحان محمود کا کہنا ہے کہ اس وقت گیس صارفین کے علاوہ باقی صارفین پہلے ہی گیس کے مقابلہ میں کہیں زیادہ قیمت ادا کررہے ہیں۔

 

ایک اندازے کے مطابق گیس صارفین کے مقابلے میں لکڑی یا دیگر توانائی کے ذرائع استعمال کرنے والے صارفین 15 گنا زائد تک قیمت ادا کررہے ہیں۔ ایسے میں کم گیس استعمال کرنے والوں کے لیے بہت زیادہ قیمت میں اضافہ نہیں ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ اس اضافے سے اندازے کے مطابق 0.5 فی صد تک مہنگائی میں مجموعی طور پر اضافہ متوقع ہے۔ لیکن اس وقت موجودہ کمر توڑ مہنگائی میں صرف ایک گیس سیکٹر نہیں ہے بلکہ آئندہ چند دنوں میں جی ایس ٹی میں ایک فی صد اضافہ، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور دیگر عوامل بھی شامل ہوں گے۔اس اضافے سے تعمیراتی شعبہ بھی متاثر ہونے کا امکان ہے۔ سٹیل انڈسٹری سے منسلک راجہ وسیم نے کہا کہ موجودہ اضافے سے اسٹیل کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا اور تعمیرات میں استعمال ہونے والے سریے کی قیمتوں میں فی ٹن چار سے پانچ ہزار روپے اضافہ متوقع ہے۔اسی طرح سیمنٹ کی قیمتوں میں بھی اضافہ متوقع ہے۔

Related Articles

Back to top button