ایم کیو ایم کی قیادت میں عہدوں کے لیے لڑائی شروع


عمران خان کی ڈوبتی کشتی سے چھلانگ لگا کر نئے اتحاد کا حصہ بننے والی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی مرکزی قیادت میں عہدوں کے حصول کے لیے پھوٹ پڑ گئی۔ میاں شہباز شریف کے وزارت عظمی سنبھالتے ہی ایم کیو ایم کی قیادت عہدوں کے حصول کے لیے سرگرم ہو گئی ہے جس کے نتیجے میں پارٹی سربراہ خالد مقبول صدیقی عضو معطل بن کر رہ گئے ہیں۔
باخبر پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ہر دور میں اقتدار کا حصہ بننے والی ایم کیو ایم قیادت پیپلزپارٹی اور ن لیگ سے کئے گئے معاہدوں پر عمل درآمد سے زیادہ اپنے لیے عہدے اور وزارتیں حاصل کرنے پر فوکس کیے ہوئے ہے۔ نئی کابینہ میں عہدہ حاصل کرنے کے لیے سب سے زیادہ کوشش سینیٹر فیصل سبزواری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بظاہر فیصل سبزواری صوبائی اور وفاقی سطح پر حکومت کا حصہ بننے کی مخالفت کر رہے ہیں مگر اندرون خانہ وہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بننے کے لیے مسلسل لابنگ شروع کر رہے ہیں۔
اسی طرح سابق مئیر کراچی وسیم اختر گورنر سندھ بننے کے لیے لابنگ کر رہے ہیں حالانکہ ابھی تک یہ طے نہیں ہو پایا کہ صوبائی گورنر شپ ایم کیو ایم کو دی بھی جائے گی یا نہیں۔ اب تک یہ اطلاع ہے کہ ایم کیو ایم کو وفاقی کابینہ میں دو جبکہ سندھ کابینہ میں چار وزارتیں دی جائیں گی، لیکن چونکہ وسیم اختر نہ تو قومی اسمبلی اور نہ ہی سندھ اسمبلی کے رکن ہیں اس لیے ان کی کوشش یہی ہے کہ وہ کسی طرح گورنر شپ حاصل کر لیں۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسی لیے شہباز شریف کی جانب سے وزارت عظمی سنبھالنے کے فوراً بعد وسیم اختر نے ٹیڑھی گفتگو شروع کر دی جسکا بنیادی مقصد نئی حکومت پر دباؤ ڈالنا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ وسیم اختر کے اس غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے انکی خالد مقبول صدیقی سے قومی اسمبلی کے اندر جھڑپ بھی ہو چکی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وسیم اختر مسلسل پارٹی قیادت کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اگر انہیں گورنر سندھ کے لیے پارٹی کیجانب سے نامز د نہیں کیا گیا تو وہ ہر فورم پر کھڑے ہوکر پارٹی قیادت کے خلاف بولیں گے۔
دوسری جانب پارٹی کے ایک اور مرکزی رہنما عامر خان بھی گورنرشپ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے برس بھی سینٹ کی سیٹ فیصل سبزواری کو دے دی گئی تھی لہٰذا اب گورنر شپ پر انکا حق بنتا یے۔ اسی طرح سینیٹر فروغ نسیم بھی نئی حکومت میں اہم عہدہ حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں، لیکن نہ تو ایم کیو ایم ایم انہیں کوئی عہدہ دلوانے میں دلچسپی رکھتی ہے اور نہ ہی نئی حکومت عمران کے کسی ساتھی کو ایڈجسٹ کرنا چاہے، خصوصا ایک ایسے شخص کو جو ماضی کے ہر غیر آئینی اقدام کا حصہ رہا۔ دوسری جانب اراکین اسمبلی خواجہ اظہار الحسن اور جاوید حنیف اپنی قیادت پر صوبائی کابینہ کا حصہ بنائے جانے کے لیے مسلسل دباو ڈال رہے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی سے کئے گئے معاہدوں پر عمل درآمد سندھ کابینہ میں شامل ہوئے بغیر ممکن نہیں اسی لیے خواجہ اظہار اور جاوید حنیف سندھ کی صوبائی کا حصہ بننے کے لئے مستقل اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور اپنی قیادت سے زیادہ پیپلزپارٹی کی قیادت سے رازونیاز کررہے ہیں۔
سابق وفاقی وزیر آئی ٹی امین الحق بھی شہباز شریف کی کابینہ کا حصہ بننے کے لیے بے چین ہیں، ان کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ پچھلی وفاقی کابینہ کا حصہ تھے اس لیے انہیں نئی کابینہ میں بھی وزارت ملنی چاہیے۔ لیکن اس وقت سب سے زیادہ قابل رحم حالت ایم کیو ایم کے سربراہ خالد مقبول صدیقی کی ہے جو حکومت کا حصہ تو نہیں بننا چاہتے مگر ان کی حالت ایک نمائشی سربراہ کی رہ گئی ہے کیونکہ کوئی بھی پارٹی لیڈران کی بات ماننے کو تیار نظر نہیں آتا اور ہر کوئی اپنی من مانی کر رہا ہے۔

Related Articles

Back to top button