پرانی کابینہ کی طرح نئی کابینہ میں بھی کیسز والے وزرا


سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے نئی وفاقی کابینہ کو ملزمان کا جتھہ قرار دینے پر نواز لیگ نے جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملزم اور مجرم میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے اور ویسے بھی اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف کیسز کی بنیادی وجہ عمران خان کا انتقامی ایجنڈا تھا۔ نون لیگ نے مزید یاد دلایا ہے کہ 2018 میں حلف اٹھاتے وقت خان صاحب خود اور ان کے صدر عارف علوی سمیت کئی وزرا سنگین نوعیت کے مقدمات کا سامنا کر رہے تھے۔ لہٰذا پی ٹی آئی والوں کو تنقید سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ یاد رہے کہ فواد کا اگلے روز ایک ٹویٹ میں کہنا تھا کہ وزیراعظم سمیت کابینہ کے 24 اراکین ضمانتوں پر رہا ملزمان ہیں۔ لہٰذا نئی کابینہ سے چیئرمین سینیٹ کی بجائے اگر آئی جی جیل خانہ جات حلف لیتا تو زیادہ اچھا ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ نیا وزیراعظم اربوں روپے کی منی لانڈرنگ میں ملوث رہا ہے۔
فواد کو جواب دیتے ہوئے اپنے ردعمل میں نواز لیگ کا کہنا ہے کہ موجودہ کابینہ ارکان کے خلاف اتنے مقدمات اس لیے ہیں کہ گزشتہ دور میں عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا اور اسی وجہ سے پاکستان برباد ہوا۔ اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ عمران خان نے اپنےانتقامی ایجنڈے کے تحت اپوزیشن قیادت کے خلاف جو بھی کیسز بنائے ان میں سے ایک بھی ثابت نہیں ہو پایا۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کے خلاف عمران دور میں منی لانڈرنگ کا مقدمہ کئی برس چلتا رہا لیکن کچھ ثابت نہ ہو پایا۔
دوسری جانب وفاقی کابینہ کے اعلان کے بعد وفاقی وزرا اور وزرائے مملکت نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا کر ذمہ داریاں سنبھالیں تو سوشل میڈیا نے نئے ذمہ داروں سے متعلق ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا۔ تحریک انصاف کے حامی سوشل میڈیا صارفین کا فوکس نئی کابینہ میں شامل افراد کے مقدمات اور سابقہ کابینہ کی کارکردگی رہی جب کہ حکومتی اتحاد کے حامی افراد سابق کابینہ کے ارکان کی غلطیوں کو نمایاں کرتے رہے۔ کابینہ سے متعلق وفاقی وزیر برائے قومی صحت مقرر کیے گئے عبدالقادر پٹیل، وزیراعظم کے مشیر مقرر کیے گئے عمران کے باغی ساتھی عون چوہدری اور وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر کا خصوصی تذکرہ کیا گیا۔ حنا ربانی کھر اور عبدالقادر پٹیل کا ذکر اتنا بڑھا کہ ان کے نام ٹوئٹر کے ٹرینڈز پینل کا حصہ بن گئے۔ تحریک انصاف کے حامی صارفین کو عبد القادر پٹیل پر یہ اعتراض تھا کہ وہ قومی اسمبلی میں اکثریت اپنے خطاب میں عمران خان اور مراد سعید کا اسکینڈل بنانے کی کوشش کرتے تھے۔ تاہم حنا ربانی کھر کا تذکرہ سوشل میڈیا پر اچھے الفاظ میں ہوتا رہا اور انہیں ایک اچھی چوائس قرار دیا گیا۔
سابق حکمراں جماعت پی ٹی آئی کے حامیوں نے ٹویٹس میں مختلف وزارتوں کے ماضی اور حال کا ذکر کرتے ہوئے سابقہ اور موجودہ وزرا کی تعلیمی قابلیت کو بھی موضوع بحث بنایا۔ ایسی ہی ایک ٹویٹ میں مدثر حسین جٹ نے ڈاکٹر فیصل سلطان کی جگہ وفاقی اردو یونیورسٹی کے گریجوایٹ عبدالقادر پٹیل کی تعیناتی کا ذکر کیا تو جواب میں فصیح منگی نے لکھا ’وفاقی اردو یونیورسٹی برائے آرٹس، سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذکر نے مجھے عامر لیاقت کی یاد دلا دی جو کسی امتحان میں شریک ہوئے بغیر ایک پروگرام کے فائنل سیمسٹر میں پہنچ گئے تھے۔‘ سابق وزیراطلاعات فواد چوہدری نے حنا ربانی کھر کی تعیناتی کو ’کم ذہنیت کی خاتون‘ کہہ کر ’مہنگے بیگ اور میک اپ‘ کو ان کی اکلوتی انفرادیت کہا تو پی ٹی آئی کے حامی ٹویپس نے بھی اس انداز پر ناگواریت کا اظہار کیا اور فواد چوہدری کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ پیپلزپارٹی کے حامی سوشل میڈیا صارفین نے فواد چوہدری کو یاد دلایا کہ ان کے کپتان نے تو اپنے دور اقتدار میں پورا توشہ خانہ ہی لوٹ لیا اور سستے داموں مال خرید کر مہنگے داموں بیچنے کا دھندہ کرتا رہا۔
وزیراعظم عمران خان کے ایما پر منشیات کے جھوٹے مقدمے میں گرفتار ہونے والے نئے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا بھی سوشل میڈیا پر خصوصی ذکر جاری ہے۔ اس حوالے سے رانا ثناء اللہ کے اس تازہ بیان کو دہرایا جارہا ہے جس میں انہوں نے توشہ خانہ لوٹنے والوں کا احتساب کرنے کا اعلان کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ عمران خان کو گرفتاری کے بعد جیل میں منشیات جیسی کوئی غیر قانونی سہولت فراہم نہیں کی جائے۔
کابینہ کے ارکان پر تنقید اور تعریف کرنے والوں نے اپنی اس سرگرمی کا خوب دفاع بھی کیا۔ ارم عظیم نے لکھا ’جناب نوجوان نسل نے آج آپ کے وزیراعظم سمیت ساری کابینہ کی تعلیمی قابلیت، مالی بدعنوانیوں کے کیسز کی لسٹ اور جعلی ڈگریوں تک کا کچہ چٹھہ کھول کر پوری دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔‘ جواب میں عمران خان حکومت گھر بھیجنے کے حمایتیوں کا کہنا تھا کہ اب کم از کم انہیں روزانہ کی بنیاد پر کپتان کا جہالت سے بھرپور بھاشن تو نہیں سننا پڑے گا۔ پی ٹی آئی کے حامی صارفین نے اپنی حکومت کے وزرا کی کارکردگی کو اچھا قرار دیتے ہوئے انہیں موجودہ وزرا سے بہتر قرار دیا تو دیگر انکے اس دعوے کا مذاق اڑاتے رہے۔ زیادہ تر سوشل میڈیا صارفین نئے وزیراعظم شہباز شریف کا موازنہ سابق وزیراعظم عمران خان کی کارکردگی سے کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں کی پرفارمنس میں زمین آسمان کا فرق چند ہی روز میں ظاہر ہوگیا ہے۔
یاد ہے کہ شہبازشریف کی وفاقی کابینہ نئے اور پرانے چہروں کا ایسا امتزاج ہے جس میں حکمران اتحاد کی چھ جماعتوں کے نمائندے موجود ہیں۔ ایوان صدر میں حلف لینے والی کابینہ میں نصف درجن اتحادی جماعتوں کے 34 ارکان نے وفاقی وزرا اور وزیر مملکت کے طور پر حلف اٹھایا جب کہ تین مشیر مقرر کیے گئے ہیں۔ نئی کابینہ میں چند ایسے وزرا بھی ہیں جو ماضی میں کئی بار کابینہ کا حصہ رہ چکے ہیں۔ ان میں خواجہ محمد آصف، احسن اقبال، رانا ثنا اللہ، خواجہ سعد رفیق، سید خورشید احمد شاہ، سید نوید قمر اور ریاض حسین پیرزادہ قابلِ ذکر ہیں۔ جب کہ متعدد ایسے چہرے بھی کابینہ کا حصہ ہیں جو پہلی مرتبہ وزارت کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔ تاہم کابینہ بنتے ساتھ ہی حکومتی اتحاد عہدوں کی تقسیم پر اختلافات کا شکار ہو چکا ہے جنہیں حل کرنے کے لیے بلاول بھٹو لندن روانہ ہوگئے ہیں جہاں وہ سابق وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کریں گے۔

Related Articles

Back to top button