فوج نیوٹرل ہو تو بھی تنقید اور نہ ہو تو بھی اعتراض کیوں؟


اقتدار سے بے دخلی کے بعد حکومت مخالف تحریک چلانے والے عمران خان فوری انتخابات چاہتے ہیں۔ لیکن ان کے پاس اس کا کوئی آئینی راستہ نہیں ہے لہٰذا وہ آئین سے ماورا اقدامات کے ذریعے فوج پر دباؤ ڈالتے ہوئے ملک میں فوری الیکشن کے انعقاد کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا غیر آئینی اقدامات کے لیے فوج کو بلانا جمہوری انداز سیاست ہے۔ پاکستانی سیاستدان بھی عجیب ہیں، اگر اسٹیبلشمٹ نیوٹرل ہو جائے تو بھی اس پر اعتراض کرتے ہیں، اور اگر نیوٹرل نہ ہو تو بھی اعتراض ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ سیاسی معاملات میں دخل اندازی کرے تو بھی اعتراض لیکن اب جب وہ سیاسی معاملات سے خود کو دور رکھ رہی ہے تب بھی تنقید کی زد میں ہے۔

ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار مزمل سہروردی اپنی تازہ تحریر میں کہتے ہیں کہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ایک فریق مداخلت کی دعوت دے اور ایک فریق نیوٹرل رہنے کا تقاضہ کرے تو کیا کیا جائے۔ ہر ایک صورت میں ایک فریق نے ناراض تو ہونا ہی ہے اور آجکل ایک فریق ناراض نظر آبھی رہا ہے‘ اسے نیوٹرل ہونے پر اعتراض ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت جب آپس میں بات چیت سے انکار کر دے تو ملکی مفاد میں مجبوراً انھیں ایک میز پر لانے کے لیے اسٹبلشمنٹ کو کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن کیا ملک کی سیاسی قیادت کو یہ عادت ہی بنا لینی چاہیے اور توقع کرنی چاہیے کہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ اور بالخصوص فوجی قیادت ہی انھیں ایک میز پر بٹھائے اور ان کے درمیان معاملات کو حل کروائے۔ بقول سہروردی، ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ اہم ملکی معاملات جن میں ایف اے ٹی ایف کی قانون سازی سے لے کر دیگر اہم ملکی معاملات شامل تھے، فوجی اسٹیبلشمنٹ کو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان رابطہ کار کا کردار ادا کرنا پڑا۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے انھیں کوئی خاص نیک نامی حاصل نہیں ہوئی۔ آج عمران خان کی خواہش ہے کہ ادارے ان کے مفادات کا تحفظ کریں، یہ درست ہے کہ پاکستان کی سیاست میں متعدد مواقعے پر اسٹیبلشمنٹ نے سیاست میں کردار ادا کیا ہے۔ اسی لیے جب تحریک انصاف کے ایک لیڈر سے پوچھا گیا کہ آپ کیسا کردار چاہتے ہیں تو انھوں نے کہا جیسا جنرل وحید کاکڑ نے ادا کیا تھا۔ یعنی انہوں نے نواز شریف کی حکومت کو گھر بھیج کر الیکشن کروا دیے تھے۔ انکامکہنا ہے کہ اب بھی ایسے ہی ہونا چاہیے لیکن درحقیقت ایسا کرنا نہ تو کل ٹھیک تھا اور نہ ہی آج ٹھیک ہے۔ آج عمران خان ملک میں فوری انتخابات چاہتے ہیں۔ لیکن ان کے پاس اس کا کوئی آئینی راستہ نہیں ہے۔ وہ آئین سے ماورا اقدامات کے ذریعے ملک میں انتخابات کا اعلان چاہتے ہیں، لیکن سوال یہ یے کہ کیا غیر آئینی اقدامات کے لیے اداروں کو بلانا جمہوری انداز سیاست ہے۔

مزمل سہروردی کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی کے اداروں کا ملک میں آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنے کا اعلان قابل ستائش ہے۔ لیکن یہ بات افسوسناک ہے کہ ان کے اس اقدام کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ایسی خواہشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ وہ حکومت کے احکامات ماننے سے انکار کر دیں۔ وہ اسلام آباد پر چڑھائی اور یلغار میں خاموش تماشائی بن جائیں اور امن وامان کے قیام میں اپنی ذمے داریاں ادا کرنے سے انکارکر دیں۔ یہ کیسی خواہش ہے کہ جب اسلام آباد کی طرف مارچ کر کے حکومت کو اٹھا کر گھر بھیجنے کی کوشش کی جائے تو قومی سلامتی کے ادارے حکومت کے احکامات نہ مانیں۔ بلکہ سارا تماشہ دیکھیں اور اس کی بالواسطہ حمایت کریں۔ پاکستان میں سول سوسائٹی اور آئین وقانون کی بالادستی کی بات کرنے والوں کو ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ ادارے قانون کے دائرے میں رہ کر کام نہیں کرتے۔ بالخصوص مسنگ پرسن کے کیسز میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ قانون کے دائرے میں کام کیا جائے۔ ایف آئی آر درج کروائی جائے اور معاملہ کو قانون کی عدالت میں لایا جائے۔ نظام انصاف پر بھروسہ کیا جائے۔ یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ جب تک ادارے خود کو قانون کے تابع نہیں کریں گے ملک میں قانون کی بالا دستی کیسے قائم ہو سکتی ہے۔ اسی دلیل کے تحت پاک فوج نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آئین و قانون میں حاصل تحفظ کے تحت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔

بقول مزمل سہروردی، حال ہی میں فوجی قیادت کے خلاف نازیبا گفتگو پر شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری کے خلاف آرمی کی جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ کی جانب سے اسلام آباد کے تھانہ رمنہ میں کیس درج کروایا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ 21 مئی کی شام ایمان مزاری نے فوج اور اس کے سربراہ کے خلاف سرعام بے بنیاد الزامات عائد کیے۔ جب ایمان مزاری کی والدہ کو پنجاب کے محکمہ اینٹی کرپشن نے چالیس ہزار کنال اراضی کے کیس میں گرفتار کیا تو انھوں نے اس کا ملبہ فوج اور اس کے سربراہ پر ڈالنے کی کوشش کی۔ اس موقع پر نہایت غیرمحتاط گفتگو بھی کی گئی۔ فوج نے جو ایف آئی آر درج کروائی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ایمان مزاری کے ریمارکس کا مقصد فوج کے رینکس اینڈ فائل میں اشتعال پیدا کرنا تھا۔ یہ اقدام فوج کے اندر نفرت پیدا کرنے کا باعث بن سکتا تھا جو ایک سنگین جرم ہے۔ لہٰذا متعلقہ قوانین کے تحت سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ اب جب قانون کے مطابق کیس درج کر لیا گیا ہے تو وہی سول سوسائٹی کہہ رہی ہے کہ پاک فوج نے ایف آئی آر درج کروا کر بہت زیادتی کر دی ہے۔ مزمل کے مطابق پہلے جب قانون کا راستہ نہیں اپنایا جاتا تھا تو کہا جاتا تھا کہ بہت زیادتی کی جاتی ہے۔ اب جب قانون کا راستہ اپنا یا گیا ہے تو میں سمجھتا ہوں نظام انصاف کا امتحان شروع ہوا ہے۔ کیا قانون اور آئین پاکستان فوج کو ایسی کردار کشی سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ کیا یہ اچھی بات نہیں کہ آج فوج نے قانون و انصاف کا راستہ اپنایا ہے۔ میں سمجھتا ہوں انصاف ملنے سے ادارے کی جانب سے ہر معاملے میں قانون کا دروازہ کھٹکھٹانے کی روایت جنم لے گی۔ملک کے انصاف کے نظام کے لیے یہ تاریخی موقع ہے کہ اس مقدمہ کا سو فیصد میرٹ پر فیصلہ ہونا چاہیے۔

اس سے پہلے بھی حکومت کی تبدیلی کے موقع پر بھی سوشل میڈیا پر پاک فوج کی قیادت کے خلاف نہایت قابل اعتراض اور نازیبا مہم چلائی گئی۔ جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ کیا پاکستان میں اس کی کھلی اجازت دی جا سکتی ہے۔ کیا یہ اجازت دی جا سکتی ہے کہ جس کا جی چاہے وہ جب چاہے ملک کی فوجی قیادت کے بارے میں جو دل چاہے کہہ دے اور قانون کی کوئی گرفت نہیں ہونی چاہیے۔ ایمان مزاری کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری مل گئی ہے۔ مزمل کہتے ہیں کہ مجھے ان کی ضمانت پر کوئی اعتراض نہیں لیکن انھیں بھی عام شہری کی طرح ماتحت عدلیہ سے ضمانت لینی چاہیے تھی۔ براہ راست اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت غیر معمولی انصاف کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ بھی کوئی اچھی روایت نہیں ہے۔ مقدمہ کی شفاف تفتیش اور ٹرائل ہونا چاہیے۔ اور قانون وانصاف کی بالادستی ہونی چاہیے۔ یہ دلیل کہ گالیوں اور قابل اعتراض گفتگو کی کھلی اجازت ہونی چاہیے اور قانون کا دروازہ نہیں کھٹکھٹانا چاہیے، ایک مضحکہ خیز دلیل ہے۔ ایسی کھلی چھوٹ دنیا کے کس ملک میں ملتی ہے؟

Related Articles

Back to top button