جسٹس یحییٰ آفریدی نے ساتھی ججوں کو کیسے شرمندہ کیا؟


سپریم کورٹ کے دیگر چار ججوں سے اختلاف کرتے ہوئے جسٹس یحییٰ آفریدی نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا جو فیصلہ دیا ہے وہ انکے ساتھی ججوں کے لیے شرمندگی کا باعث ہے چونکہ بقول یحییٰ آفریدی سپریم کورٹ کے 25 مئی کے حکم نامے کی خلاف ورزی پر سابق وزیراعظم کے خلاف کارروائی شروع کرنے کے لیے کافی مواد موجود ہے، خصوصا ًانکی جانب سے اپنے پارٹی کارکنوں کو ڈی چوک پہنچنے کا حکم جسکے بعد دارالحکومت میں تباہی مچا دی گئی۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے عمران خان کے احتجاج سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے۔ 12 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا۔ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی آئی بی، آئی جی اسلام آباد اور دیگر سے پی ٹی آئی کارکنوں کی 25 مئی کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈی چوک آمد پر رپورٹس طلب کر لی ہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ حقائق کی تصدیق کے بعد سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی کہ آیا وہ توہین عدالت کی کارروائی شروع کرے یا نہیں؟ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے حکومتی ایجنسیوں سے رپورٹ طلب کرکے کارروائی ڈالنے کی کوشش کی ہے چونکہ ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ 25 مئی کی رات عدالتی حکم نامے کے تحت اسلام آباد میں داخل ہونے والے عمران اور ان کے ساتھیوں نے وہاں کس قسم کی تباہی اور بربادی مچائی تھی۔ زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اپنے حکم کی واضح خلاف ورزی پر کوئی کارروائی نہ ہونے کے بعد موصوف کی اتنی بڑھ گئی کہ اس نے اپنے اگلے لانگ مارچ کے لئے بھی عدالت عظمیٰ سے تحفظ مانگ لیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر کسی اور سیاستدان نے اس قسم کی حرکت کی ہوتی تو سپریم کورٹ نے کسی درخواست کے بغیر ہی اس پر توہین عدالت لگا کر سزا سنا دینا تھی۔ تاہم حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت عمران خان کے لیے انصاف کے دوہرے پیمانے اپنائے ہوئے ہے۔

تاہم سپریم کورٹ کے جسٹس یحییٰ آفریدی نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور دیگر تین ساتھیوں ججوں سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ میری رائے میں عمران نے عدالتی احکامات کی حکم عدولی کی۔ عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کیلئے کافی مواد موجود ہے۔ عمران سے پوچھا جائے کیوں نہ آپ کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ میں شامل جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ عمران نے اپنے کارکنان کو ڈی چوک پہنچنے کا کہااور 25 مئی کے عدالتی احکامات کو نہیں مانا۔ آفریدی لکھتے ہیں کہ میں اس بات سے آمادہ نہیں عمران کے خلاف کارروائی کیلئے عدالت کے پاس مواد موجود نہیں، میری رائے کے مطابق عمران خان نے عدالتی احکامات کی کھلم کھلا حکم عدولی کی۔ انہوں نے کہا کہ عمران کے بیان کی ویڈیو سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چلائی گئی، جس میں کہا گیا کہ اسلام آباد اور راولپنڈی سے لوگ ڈی چوک پہنچنےکی کوشش کریں، عمران نے بیان میں کہا کہ ’میں انشااللہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ میں ڈی چوک پہنچ جاؤں گا‘۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں تحریر کیا کہ میرے خیال میں عمران کا یہ بیان اور بعد کا عمل 25 مئی کےعدالتی حکم سے ماورا تھا، بادی النظر میں عمران نے عدالت کے 25 مئی کے احکامات کی حکم عدولی کی لہذا ان کے خلاف توہین عدالت کے الزام پر کاروائی شروع کی جانی چاہیے۔

دوسری جانب جسٹس عمر عطا بندیال اور ان کے تین ساتھی ججوں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ تحریک انصاف کی قیادت اور مظاہرین نے احتجاج ختم کردیا۔ لانگ مارچ کے ختم ہونے کے بعد تمام شاہراہوں کو کھول دیا گیا۔ آزادانہ نقل وحرکت میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے لہٰذا درخواست دائر کرنے کا مقصد پورا ہو چکا ہے اور اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کی درخواست کو نمٹایا جاتا ہے۔

تفصیلی فیصلے میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے آئی جی پولیس، چیف کمشنر اسلام آباد، ڈی جی آئی بی اور ڈی جی آئی ایس آئی سے بھی ایک ہفتے میں جواب طلب کر لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سیکرٹری وزارت داخلہ سے بھی ایک ہفتے میں سات سوالوں کے جواب طلب کئے گئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ عمران خان نے پارٹی ورکرز کو کس وقت ڈی چوک جانے کی ہدایت کی؟ کس وقت پی ٹی آئی کارکنان ڈی چوک میں لگی رکاوٹوں سے آگے نکلے؟ کیا ڈی چوک ریڈ زون میں داخل ہونے والے ہجوم کی نگرانی کوئی کر رہا تھا؟

عدالت کی جانب سے سوالات پوچھے گئے ہیں کہ کیا وفاقی حکومت کی جانب سے دی گئی یقین دہائی کی خلاف ورزی کی گئی؟ کتنے مظاہرین ریڈزون میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے؟ ریڈ زون کی سکیورٹی کے انتظامات کیا تھے؟ ایگزیکٹو حکام کی جانب سے سکیورٹی انتظامات میں کیا نرمی کی گئی؟ کیا سکیورٹی بیریئر کو توڑا گیا؟ کیا مظاہرین یا پارٹی ورکر جی نائن اور ایچ نائن گرائونڈ میں گئے؟ عدالت نے زخمی، گرفتار اور ہسپتال میں داخل ہونے والے مظاہرین کی تفصیلات بھی طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام ثبوتوں کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائیگا کہ عدالتی حکم کی عدم عدولی ہوئی یا نہیں؟

Related Articles

Back to top button