پاکستان کا سعودی عرب کو چھوڑ کر نیا اتحاد بنانے کا فیصلہ


امریکہ اور سعودی عرب کی بھارت سے بڑھتی ہوئی رفاقت کے بعد پاکستان اور سعودی عرب کے مابین بھی فاصلوں میں اضافہ ہو گیا ہے اور اب یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان نے امریکہ اور اسکے مسلم اتحادی سعودی عرب کو چھوڑ کر چین، ترکی، ایران اور پاکستان پر مشتمل ایک نیا اتحاد تشکیل دینے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ کیا چین پاکستان کے لیے سعودی عرب کے متبادل کے طور پر اتنا ہی کارآمد ثابت ہو پائے گا یا نہیں؟
مقبوضہ جموں و کشمیر کے معاملے پر جب پاکستان کو سعودی عرب کی حمایت حاصل نہیں ہوئی تو اس نے اس معاملے پر پہلی دفعہ کھلے عام اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا اور سعودی عرب کے کردسر پر تنقید کی۔ یاد ریے کہ گذشتہ دنوں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے مسئلہ کشمیر پر انڈیا کے خلاف اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم یعنی او آئی سی کا ساتھ نہ دینے پر سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ شاہ محمود نے کہا کہ میں ایک بار پھر او آئی سی سے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلانے کی درخواست کر رہا ہوں۔ اگر آپ اب بھی اس کا انعقاد نہیں کرتے ہیں تو میں وزیراعظم عمران خان سے یہ مطالبہ کرنے پر مجبور ہوں گا کہ وہ ان اسلامی ممالک کا اجلاس طلب کریں، جو مسئلہ کشمیر پر ہمارے ساتھ ہیں اور مظلوم کشمیریوں کی حمایت کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ سعودی عرب مسئلہ کشمیر پر ایک طرح سے بھارت کا ساتھ دے رہا ہے اور پہلے ہی انڈین آئین میں جموں کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 کے خاتمے کو بھارت کا داخلی معاملہ قرار دے چکا ہے۔ واضح رہے کہ او آئی سی میں بنیادی طور پر سعودی عرب کا اثر و رسوخ ہے۔ پاکستان کے تنقیدی تبصرے کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کو 2018 میں دیے گئے 3.2 ارب قرض میں سے ایک ارب ڈالر فوری طور پر واپس مانگ لئے تھے۔ اسکے علاوہ سعودی عرب نے قرض کی عدم ادائیگی کے سبب رواں برس مئی سے پاکستان کو ادھار تیل دینا بند کر دیا ہے۔ پاکستانی میڈیا میں بھی شاہ محمود قریشی کے بیان پر بھی تنقید ہوئی کیونکہ تجزیہ کاروں کے مطابق اس سے پاکستان پر قرض واپس کرنے کا دباؤ بڑھ گیا ہے۔ ماہرین اور تجزیہ کار اسے سعودی عرب سے متعلق پاکستان کے رویے میں ایک بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے نزدیک پاکستان کے متعلق سعودی عرب کے رویہ میں آنے والی اِس تبدیلی کے بارے میں اسے عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ یہ ایشیائی ممالک کے مابین بدلتے توازن کی وجہ سے ہے۔ امریکہ اور چین ایشیائی ممالک میں اپنا اپنا توازن قائم کر رہے ہیں۔’سعودی عرب روایتی طور پر امریکہ کا اتحادی رہا ہے اور اسلامی دنیا میں سعودی عرب کا تسلط رہا ہے۔ اب جبکہ امریکہ اور چین کے مابین سرد جنگ کی ایک نئی صورتحال پیدا ہوئي ہے، چین ایشیائی ممالک میں دخل اندازی کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے لیے نیا توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت یے کہ ایران کے ساتھ چین ایک بڑا معاہدہ کرنے جا رہا ہے۔ وہ پاکستان گوادر پورٹ اور چین، پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک میں بھی بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اس طرح سے پاکستان اور ایران دونوں چین کے قریب تر آ رہے ہیں۔
عالمی امور کے بعض ماہرین کے مطابق در حقیقت چین اسلامی دنیا میں سعودی عرب کا متبادل بنانا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ ایران، ملائیشیا اور پاکستان جیسے ممالک کی طرف دیکھ رہا ہے۔ کچھ عرصپ قبل ملائیشیا میں ایک بہت بڑا اسلامی ممالک کا سربراہ اجلاس بھی ہوا ہے جس میں پاکستان اور ایران نے بھرپور شرکت کی تھی جبکہ سعودی عرب اس میں موجود نہیں تھا۔ حکومت پاکستان نے 2018 میں چین کے ساتھ تقریباً 62 ارب ڈالر کے سی پیک منصوبے میں سعودی عرب کو شامل کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس معاملے پر عمران حکومت کو حزب اختلاف کی جماعتوں کی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔لیکن بعد میں حکومت پاکستان نے اپنے فیصلے پر یوٹرن لیتے ہوئے واضح کیا کہ سی پیک دو طرفہ معاہدہ ہی رہے گا۔
دوسری جانب گذشتہ کئی برسوں میں خلیجی ممالک خصوصاً سعودی عرب کے ساتھ انڈیا کی قربت میں اضافہ ہوا ہے۔ انڈیا کے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ معاشی تعلقات کے علاوہ سکیورٹی پالیسی کے حوالے سے بھی تعلقات مزید بہتر ہو رہے ہیں۔انڈیا، امریکہ اور متحدہ عرب امارات اس بدلتے ہوئے توازن میں فطری شراکت دار بن رہے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کبھی بھی اکٹھا نہیں ہو سکتے۔ سعودیہ امریکہ سے قربت کی وجہ سے سعودی عرب بھی انڈیا کے بھی قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ ماہرین کے خیال میں چین خلیجی ممالک کے بازار میں اپنے امکانات یقینی طور پر تلاش کرنے کے درپے ہے، لیکن جیو سٹریٹیجک معاملے میں ایران اور پاکستان سعودی عرب سے زیادہ اہم ہیں۔’چین یقینی طور پر سعودی عرب کو امریکہ کے اثر و رسوخ سے نکالنا چاہتا ہے لیکن وہ کبھی بھی پاکستان اور ایران کی قیمت پر یہ کام نہیں کرنا چاہے گا۔ اس کے علاوہ چین اب پاکستان اور بنگلہ دیش کو بھی ساتھ لانے کی کوشش کر رہا ہے۔
بعض ماہرین بدلتی ہوئی موجودہ صورتحال میں اسرائیل اور ایران کا کردار بھی دیکھتے ہیں۔امریکہ اس وقت ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی حمایت کر رہا ہے مگر اس کے باوجود مستقبل میں عدم تحفظ کا احساس باقی ہے اور اس کی بنیادی وجہ اسرائیل اور ایران ہیں۔محمد بن سلمان کی آمد کے بعد سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات تاریخ کے بہترین دور میں ہیں۔ ان کے تعلقات پہلے کبھی اتنے اچھے نہیں تھے لیکن آج یہ دونوں ممالک ایران کے خلاف متحد ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل کو ایک موثر ترین مسلم ملک سعودی عرب کی حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ سعودی عرب نے اب اپنی شناخت کٹر وہابی مملکت کی باجئے ایک سنی ملک کے طور پر بنائی گئی ہے۔ اس سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ جو بھی ایران کے خلاف ہے وہ سعودی عرب کا شراکت دار ہے۔اب سعودی عرب، انڈیا اور اسرائیل ایک طرف ہیں کیونکہ وہ امریکہ کے ساتھ ہیں۔ دوسری طرف مشرف کے دور سے پاکستان آہستہ آہستہ چین کے قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ اسرائیل اس توازن کو بنانے میں بڑا کردار ادا کر رہا ہے اور وہ ایران کا سخت مخالف ہے۔ عالمی امور کے اکثر ماہرین اس نکتے پر متق ہیں کہ اگرچہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان یقینی طور پر کشیدہ صورتحال ضرور پیدا ہوئی ہے تاہم اسے دشمنی نہیں کہا جا سکتا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button