آئی ایم ایف نے پاکستان کیلئے 3 ارب ڈالر کی منظوری دیدی

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے لیے 3ارب ڈالر کے قرض کی منظوری دے دی ہے۔ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے منظوری کے بعد 1.2ارب ڈالر فوری طور پر جاری کردیے جائیں گے۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے لیے 9ماہ کے لیے 3ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی معاہدے کی منظوری دے دی ہے تاکہ پاکستان کے معاشی استحکام کے پروگرام کو سپورٹ کیا جا سکے۔

اس سلسلے میں کہا گیا کہ یہ اس معاہدے کا انتظام ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب پاکستانی معیشت مشکل حالات سے گزر رہی ہے، مشکل بیرونی ماحول، تباہ کن سیلاب اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے اسے بڑے مالی اور بیرونی خسارے، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور تیزی سے ختم ہوتے ہوئے زرمبادلیہ کے ذخائر جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

گزشتہ ماہ ہونے والے اس معاہدے کے لیے پہلی قسط کے اجرا سے قبل آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری درکار تھی اور اب پاکستان کو 1.2ارب ڈالر کی پہلی قسط جاری کردی جائے گی جبکہ بقیہ دو اقساط سہ ماہی بنیادوں پر دو جائزوں کے بعد جاری کی جائیں گی۔

وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے آئی ایم ایف کی منظوری کے بعد جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اللہ کا شکر ہے چیزیں درست سمت پر جا رہی ہیں، جس کے لیے ہم کئی مہینوں سے کوشش کر رہے تھے اور مشکل مذاکرات تھے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمار 2019 اور 2022 والا پروگرام جو ایک سال وسیع ہوا، اس میں ہمیں نویں جائزے کے لیے 1.9 ارب کا توقع کر رہے تھے، باقی ختم ہوجانا تھا تو آخر میں ہماری زیادہ توانائی خرچ ہوئیں وہ اسی پر ہوئیں کہ اگر ہم انتظامات کریں جو ڈھائی ارب بچا ہے اور اس میں آئی ایم ایف ملا دے اور اسٹینڈ بائی معاہدہ کرے تو اس میں ہمیں کامیابی ہوئی اور ٹیکسز بھی بڑھانے پڑے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سعودی عرب نے ساتویں جائزے کے وقت کہا تھا کہ دو ارب تک مدد کریں گے اور متحدہ عرب امارات نے بھی کہا تھا کہ ہم مدد کریں گے تو یہ 8 سے 9 مہینے پرانے وعدے تھے اور ابھی انہوں نے اس کو دوبارہ تازہ کیا تھا۔اسحٰق ڈار نے کہا کہ ’وزیراعظم نے کچھ عرصہ قبل سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کا دورہ کیا تھا جہاں میں ان کے ساتھ تھا اور ان تمام ممالک میں ہم نے معاملات اٹھائے تھے۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’میری کوشش ہے کہ اس حکومت کی مدت مکمل ہونے تک، ممکنہ طور پر جولائی کے اختتام تک قومی ذخائر 14 سے 15 ارب ڈالر کے درمیان ہوں، اس کا مطلب ہے کہ تقریباً 5.2 یا 5.3 ارب نکال دیں تو 9 سے پونے 9.975 ہوں گے تو ہم 14 سے 15 کے درمیان ہوں گے۔ ہم نے مالی اصلاحات کرنی تھی اور 3 سے 4 سال سے ہمارا پروگرام التوا کا شکار تھا اور 4 بڑے اہم اقدامات پچھلے چند برسوں میں نہیں ہوئے تھے اور جب میں نے ذمہ داری سنبھالی تو میں نے کرلیے تھے۔

جون میں جاری کیے گئے پہلے شیڈول میں پاکستان ایجنڈے میں شامل نہیں تھا، جس سے قیاس آرائیوں نے جنم لیا کہ آئی ایم ایف 30 جون کو ختم ہونے والے سابقہ پروگرام کے تحت فنڈز جاری نہیں کرے گا تاہم 29 جون کو آئی ایم ایف اور پاکستان نے ملک کے معاشی بحران کو کم کرنے کے لیے عملے کی سطح پر 3 ارب ڈالر اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدہ کیا۔

اس معاہدے کا پاکستان کو طویل عرصے سے انتظار تھا جس کی ڈولتی معیشت ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرے کا سامنا کررہی تھی، تقریباً 8 ماہ کی تاخیر کے بعد ہوا یہ معاہدہ جولائی کے وسط میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے، جس سے ادائیگیوں کے توازن کے شدید بحران اور گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کی وجہ سے مشکلات کا شکار پاکستان کو کچھ مہلت ملے گی۔

9 مہینوں پر محیط 3 ارب ڈالر کی فنڈنگ پاکستان کے لیے توقع سے زیادہ ہے، کیوں کہ ملک 2019 میں طے پانے والے 6.5 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے بقیہ ڈھائی ارب ڈالر کے اجرا کا انتظار کر رہا تھا، جس کی میعاد گزشتہ ماہ ختم ہو گئی تھی۔

پی ٹی آئی نے پرویز خٹک کو پارٹی سے نکال دیا، نوٹیفکیشن جاری

Related Articles

Back to top button