عمران خان مسلسل فوجی قیادت کو کیوں نشانہ بنا رہا ہے؟


عمران خان کے سابقہ بہنوئی اور معروف کالم نگار حفیظ اللہ خان نیازی نے کہا ہے کہ آج کی تاریخ میں عمران کے دو بڑے ٹارگٹس ہیں، پہلا ٹارگٹ اس گڑھے کو مزید گہرا کرنا ہے جس میں ملکی معیشت گر چکی ہے جبکہ دوسرا ٹارگٹ پاکستانی فوج کی چولیں ہلانا ہے، پہلی دو کامیابیوں کے بعد اگلا ٹارگٹ ایٹمی پروگرام ناکارہ بنانا ہے، ایسے میں ہماری بدقسمتی کہ نواز شریف کو لندن بیٹھ کر وطن عزیز کی شکست و ریخت کو بے بسی سے دیکھنا ہوگا۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ جہاں حالات کے جبر اور نواز شریف کے قریبی ساتھیوں کی ریشہ دوانیوں نے انہیں مرکزی دھارے کی سیاست سے باہر کر دیا وہاں عمران خان کو مرکزی دھارے کی سیاست کا گرائونڈ فراہم کیا۔گوجرانوالہ میں نواز شریف نے جب اپنی مشہور زمانہ تقریر میں اصل ہدف کا تعین کیا تو عمران کو فقط مہرہ قرار دیا، اور تحریک انصاف ڈنکے کی چوٹ پر فوجی اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ تھی بھی۔ حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ تب عمران خان کی اکڑ آسمانوں پر تھی، بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا، وگرنہ عمران کی سیاسی آبرو کیا تھی۔ موصوف کواقتدار ملا تو ساری طاقت ایک پیج کی پروموشن اور ستائش پر مرکوز رکھی۔ یہی عوامل 2021 کے اختتام سے پہلے ہی تحریک انصاف کو ذلت و رسوائی اورغیر مقبولیت کی طرف دھکیل گئے۔ دوسری طرف نوازشریف کی میڈیا تک رسائی نہیں، تاحیات نااہل، پارٹی صدارت سے معزول، مریم نواز چپ، لیکن اس سب کچھ کے باوجود سیاست کا محور و مرکز نواز شریف ہی ہیں۔صد افسوس! نادان گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا، کہ نون لیگ تحریک عدم اعتماد میں پیپلز پارٹی کی ہمنوا بن گئی اور آج عمران کے گناہوں کا ٹوکرا سر پر، اپنے ہی بیانیے کی نفی میں سر بکفن یے۔

حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ مجھے پہلے سے ہی ادراک تھا کہ 2022 تحریک انصاف اور فوج کی لڑائی کا سال ہے۔ یقینی طور پر اس لڑائی میں ایک ’’ تیتر‘‘ کی چونچ اور دوسرے ’’ تیتر‘‘ کی دْم نے گم ہونا تھا۔ لیکن مسلم لیگ ن کا مفاہمتی گروپ ہر صورت میں عمران کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار بننے پر تیار ہوگیا۔اسٹیبلشمنٹ بھی یہ لڑائی خود لڑنے کی بجائے بذریعہ سیاستدان لڑنا چاہتی تھی اور اب ایسا ہی ہو رہا ہے۔

حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ جب عمران اقتدار میں آئے تھے تو پہلے دن سے میری ان سے ایک ہی تکرار رہتی تھی، کہ یہ ایک صفحہ نہیں رہنا، یہ پھٹ جائے گا۔ سب منافقت ہے، ٹکراؤ کا انتظار کریں۔ لیخ مجھے اس بات کا پہلے سے اندازہ تھا کہ عمران یہ جنگ ایسی دلیری سے لڑے گا کہ اسٹیبلشمنٹ ماضی قریب کے سارے ٹکراؤ بھول جائے گی۔ اور پھر وہی ہوا، اقتدار سے محروم ہوتے ہی عمران نے انتہائی جارحانہ رویہ اختیار کر کے براہ راست فوجی اسٹیبلشمنٹ کو للکار دیا۔ خان کی دیدہ دلیری ایسی کہ نیوٹرل ہونا جرم قرار دے دیا، سپہ سالار کو غدار کہہ ڈالا، جھوٹ اور پینترے بدلنے میں بھی مثالیں قائم کیں، لیکن ابھی تک اسکا نشانہ چوکا نہیں ہے۔
 
حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ اس صورتحال میں نواز شریف کی سیاست ہو یا اسٹیبلشمنٹ یا دیگر ادارے، سارے مدافعانہ، اور معذرت خواہانہ لہجہ اختیار کیے عمران کی جارحیت کے سامنے بے بس نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں عمران خان کے دو ٹارگٹس ہیں۔ پہلا تباہ حال پاکستانی معیشت کو مزید تباہی کی دلدل میں دھکیلنا جبکہ دوسرا ٹارگٹ پاکستانی فوج کی چولیں ہلانا ہے، پہلی دو کامیابیوں کے بعد اگلا ٹارگٹ ایٹمی پروگرام ناکارہ بنانا ہو گا، ایسے میں ہماری بدقسمتی کہ نواز شریف کو لندن بیٹھ کر وطن عزیز کی شکست و ریخت کو بے بسی سے دیکھنا ہوگا۔

Related Articles

Back to top button