ہراسانی کی نئی داستانیں رقم کرنے والا جنسی بھیڑیا جاوید اقبال

عمران خان کے دور میں پکے حکومتی ٹٹو کا کردار ادا کرنے والے 76 سالہ جسٹس جاوید اقبال کے بارے اب یہ کہانی کنفرم ہو گئی ہے کہ وہ اپنی گندی ویڈیوز کی وجہ سے سابق وزیر اعظم کے ہاتھوں بلیک میل ہو کر اپوزیشن قیادت کے خلاف جھوٹے کرپشن کیسز بنواتا رہا اور اسی لیے نیب اب تک ایک بھی ایسا مقدمہ ثابت نہیں کر پایا۔ عمران حکومت کے خاتمے کے بعد جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی ایسی ایسی شرمناک کہانیاں سامنے آ رہی ہیں جنہوں نے لوگوں کو اپنی انگلیاں دانتوں میں دبانے پر مجبور کر دیا ہے۔ سب حیران ہیں کہ ایسی شیطانی خصلت رکھنے والا شخص آخر نیب چیئرمین کے عہدے پر کیسے قائم رہا اور اب بھی لاپتہ افراد کمیشن کی سربراہی سے کیوں نہیں ہٹایا جا سکا؟
یاد رہے کہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اپنے کیریئر کے دوران اکثر تنازعات کا شکار رہے۔ ان کا شمار ان ججوں میں ہوتا ہے جنہوں نے فوجی آمر پرویز مشرف کے پہلے پی سی او عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف اٹھایا۔کچھ عرصہ پہلے عمران کی وزارت عظمیٰ کے دوران جب نیب کے رنگیلے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے جاوید چودھری کے ساتھ ملاقات کے دوران حکومت کے بڑوں کے خلاف اپنے ارادوں کا اظہار کیا تو فوراً ہی ان کا ایک جنسی ویڈیو سکینڈل نمودار ہو گیا جو ایک ایسے چینل سے نشر کیا گیا جس کا مالک طاہر اے خان تب عمران خان کا سرکاری مشیر تھا۔ تب سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا کہ وہ اپنے اختیارات کو اپنی نفسانی خواہشات کے حصول کے لیے استعمال کر رہا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کے خلاف فوراً ایکشن لیا جاتا لیکن ناصرف اسے عہدے پر برقرار رکھا گیا بلکہ معجزاتی طور پر موصوف کو تمام تر حکومتی سکینڈل بھی اچانک نظر آنا بند ہوگے اور اپوزیشن کا بال بھی کھال نظر آنے لگا۔
اپوزیشن بہت بلبلائی لیکن اس وقت ریاست کے تمام جنات اور موکل عمران خان کے ساتھ کھڑے تھے۔ کچھ ہی دنوں بعد یہ سکینڈل رفع دفع ہو گیا۔ لیکن اب یہ انکشاف ہوا ہے کہ جسٹس جاوید اقبال کی قابل اعتراض ویڈیوز اور آڈیوز ان کے ہاتھوں ہراسانی کا شکار ہونے والی ایک خاتون طیبہ گل نے وزیراعظم کے حوالے کی تھی جنھوں نے بالمشافہ ملاقات میں انہیں یقین دلایا تھا کہ ریاست مدینہ میں خواتین کے ساتھ ایسا بھیانک سلوک کرنے والے نیب چیئرمین کو نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔ لیکن اپنے وعدے کے برعکس عمران خان نے ان ویڈیوز اور آڈیوز کو جاوید اقبال کو بلیک میل کرنے کیلئیے استعمال کیا تاکہ اسے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کروانے پر مجبور کیا جا سکے۔
اب جسٹس جاوید اقبال کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے سارے کالے کرتوت ایک ایک کر کے سامنے آ رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس ایکٹویسٹ آمنہ مسعود جنجوعہ کے مطابق لاپتہ افراد کی فیملیز کی عورتیں بھی جسٹس جاوید اقبال کی جنسی ہراسانی کا شکار ہو چکی ہیں چونکہ موصوف لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ بھی ہیں۔ آمنہ جنجوعہ کے مطابق جاوید اقبال نے ان کی موجودگی میں اپنے شوہر کی تلاش میں سرگرداں ایک خاتون کو کہا کہ آپ کو خاوند کی کیا ضرورت ہے، آپ تو خود اتنی خوبصورت ہیں۔ یہ معاملہ اب سنگین صورت اختیار کرتا نظر آ رہا ہے۔ طیبہ فاروق کے مطابق انہیں ان کے شوہر کے ہمراہ ڈیڑھ مہینہ عمران خان کے دور میں وزیراعظم ہاؤس میں نظر بند رکھا گیا، اور جو ویڈیوز انہوں نے انصاف کے حصول کے لیے بنائی تھیں، انہیں ریاست کے سب سے بڑے رنگیلے نے دوسرے رنگیلے کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کر لیں۔ یہ معاملہ اور کتنے گل کھلائے گا؟
یاد رہے کہ مارچ 2007 میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہونے کے بعد جاوید اقبال کو سپریم کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس مقرر کیا گیا تھا اور یہ فوراً تیار ہو گئے۔ انہوں نے برادر جج کے لئے کوئی اصولی مؤقف اپنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ البتہ جب 9 مارچ کو افتخار چوہدری کی پہلی پیشی پر وکلا کی جانب سے شدید ردِ عمل کا مظاہرہ ہوا اور اگلے چند روز حیرت انگیز طور پر بڑے بڑے احتجاج دیکھنے میں آئے تو برادر ججز کو بھی کچھ دباؤ کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑے اور جسٹس جاوید اقبال اس عہدے سے علیحدہ ہو گئے کیونکہ جسٹس رانا بھگوان داس واپس آ چکے تھے اور پھر یہی اگلے چند ماہ سپریم کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس رہے۔ جاوید اقبال 2011 سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے بنائے گئے کمیشن کی سربراہی کر رہے ہیں۔ 2016 میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں انہوں نے بیان دیا تھا کہ دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی لاپتہ افراد کی حالت ایسی ہی ہے جیسے پاکستان کی۔ ایک اور بیان میں موصوف نے عجیب منطق بیان کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ لاپتہ افراد کو ہماری نہیں بلکہ دشمن ملک کی ایجنسیوں نے اٹھایا ہے۔ ویسے بھی ان میں سے لگ بھگ 80 فیصد تو دہشتگردی میں ملوث ہیں۔
عمران حکومت کے خاتمے کے بعد جاوید اقبال کی ہراسانی کا معاملہ دوبارہ سے اٹھانے والی خاتون طیبہ گل نے 7 جولائی 2022 کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر ایسے ایسے انکشافات کیے جسے سن کر تمام ارکان پریشان ہو گئے۔ طیبہ گل نے بتایا کہ جاوید اقبال نے ان کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ انہوں نے ناصرف ٹیلی فون کالز کر کے بارہا ہراساں کیا بلکہ اکیلے اپنے فلیٹ میں آنے کی ضد کرتے رہے۔ میں نے انکار کیا تو جھوٹے مقدمے میں گرفتار کروا دیا۔ شاہزیب خانزادہ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہیں برہنہ کر کے ان کی ویڈیوز بنائی گئیں اور ان کے شوہر کو دکھا کر دونوں کو بلیک میل کیا گیا۔ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی ان ویڈیوز کو حاصل کر کے کارروائی کی یقین دہانی کروائی لیکن الٹا انہیں چیئرمین نیب کو بلیک میل کرنے کے لئے استعمال کرتے رہے۔ یہاں تک کہ 2020 میں جیو نیوز کے مالک میر شکیل الرحمان کو نیب نے گرفتار کیا تو طیبہ گل اور ان کے شوہر کو وزیر اعظم ہاؤس میں بلایا گیا اور انہیں 45 دن تک حبسِ بے جا میں رکھا گیا۔ بقول ان کے حکومت کو ڈر تھا کہ میں جنگ گروپ سے رابطے میں ہوں اور میرے پاس جاوید اقبال کے خلاف جو مزید ثبوت موجود تھے، انہیں جیو نیوز کے حوالے کر سکتی ہوں لہٰذا مجھے وزیر اعظم ہاؤس میں 45 دن قید رکھا گیا اور کہا جاتا رہا کہ آپ کی جان کو نیب سے خطرہ ہے، اس لئے آپ کی حفاظت کے لئے آپ کو یہاں رکھا جا رہا ہے۔
ان انکشافات کے بعد پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے مشترکہ طور پر وزیراعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا تھا کہ جاوید اقبال کو فوری طور پر لاپتہ افراد کمیشن کی سربراہی سے ہٹا کر ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جائے، تاہم ابھی ایسا نہیں ہو پایا۔ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو 2017 میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور دیگر سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے چیئرمین نیب مقرر کیا گیا تھا۔ بعد ازاں انہوں نے شاہد خاقان عباسی پر ہی کیس بنا کر انہیں بھی گرفتار کروایا اور خورشید شاہ کو بھی۔
جاوید اقبال نے عمران خان کے دور حکومت میں اپوزیشن رہنمائوں کے خلاف متعدد کیس بنائے لیکن پی ٹی آئی کے خلاف ہیلی کاپٹر اور مالم جبہ جیسے اہم مقدمات کو بند کر دیا۔ پشاور بی آر ٹی کیس بھی کئی سالوں سے نیب کی فائلوں میں بند پڑا ہے۔ اس سے ان کی جانبداری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔سابق چیئرمین نیب کے دور میں شہباز شریف، حمزہ شہباز، آصف علی زرداری، شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق سمیت کئی رہنمائوں کو جیلوں میں بھیجا گیا لیکن ان کے خلاف کوئی الزام ثابت نہ ہوا۔ ویڈیوز سکینڈل، نیب کی حراست میں ملزمان کی موت اور خودکشی کے واقعات اور متنازع کیس بنانے پر سیاسی جماعتیں ان کو چیئرمین نیب کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کرتی رہیں لیکن ان کی کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔ اسی دوران بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر نے
بھی نیب کے دباؤ کی وجہ سے خود کشی کر لی تھی۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ان کی موت کے ٹھیک تین سال بعد انہیں نیب کیسز سے باعزت بری کر دیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ اپنے متعدد فیصلوں اور ریمارکس میں کہہ چکی ہے کہ نیب کو سیاسی انجینیئرنگ کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سابق ڈی جی ایف آئی اے مطیع اللہ جان کو اپنے انٹرویو میں بتا چکے ہیں کہ عمران خان نے انہیں تمام اپوزیشن لیڈران پر مقدمات بنانے کے لئے کہا اور انکار پر عہدے کے آخری دنوں میں جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا۔ ان کے مطابق یہ کیسز قانون کے مطابق بنتے نہیں تھے لیکن بعد ازاں نیب نے یہ تمام کیسز بنائے اور اس کے بدلے میں عمران خان نے اقتدار سے علیحدہ ہونے سے چند ہی روز قبل ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ان کی مدت ملازمت میں نئے چیئرمین کی تعیناتی تک توسیع کر دی۔ اب شیطان صرف جسٹس جاوید اقبال بطور نئے چیئرمین تو ریٹائر ہو چکے ہیں لیکن اپنی تمام تر خباثتوں کے ساتھ لاپتہ افراد کمیشن کی سربراہی کر رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ انہیں اس کمیشن کی صدارت سے ہٹایا جاتا ہے یا لوگوں کو لاپتہ کرنے والے ایک مرتبہ پھر ان کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔