کرپشن الزامات پر عثمان بزدار پر ہاتھ ڈالنے کی تیاری شروع

حکومتی اداروں نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی اربوں روپے کی کرپشن کے پکے ثبوت اکٹھے کر لئے ہیں اور جلد انکے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کردیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پھنسنے والے چند بڑے ناموں نے بزدار کیخلاف وعدہ معاف گواہ بننے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔
یاد رہے کہ بزدار کے خلاف ان کی وزارت اعلیٰ کے دوران ہی نیب نے کرپشن پر انکوائریوں کا آغاز کردیا تھا لیکن عمران خان کے دباؤ پر یہ انکوائریاں بند کر دی گئیں۔
خیال رہے کہ عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں متعدد بار یہ دعویٰ کیا تھا کہ عثمان بزدار سے اچھا وزیر اعلیٰ پنجاب کو نہیں ملا، اور مل بھی نہیں سکتا۔ صرف یہی نہیں انہوں نے بڑی بھڑک مارتے ہوئے موصوف کو وسیم اکرم پلس تک قرار دیدیا تھا جس پر وسیم اکرم نے بذات خود سخت رد عمل کا اظہار کیا تھا۔ یہ اور بات کہ عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد عثمان بزدار کبھی کہیں نظر نہیں آئے۔
حکومتی ذرائع نے بتایا ہے کہ عثمان بزدار کی جانب سے اپنی وزارت اعلیٰ کے دوران کی جانے والی کرپشن کے ثبوت اکٹھے کر لیے گئے ہیں۔ بزدار اور ان کے فرنٹ مینوں کے خلاف شواہد وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کو بھی دکھا دیئے گئے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ پنجاب حکومت نے سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی گرفتاری کے لئے پکے شواہد اکٹھے کرنے پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ عثمان بزدار کے پھوپھا امیر تیمور کیخلاف بھی کرپشن اور کک بیکس کے شواہد حاصل کر لیے گئے ہیں، جب کہ نیب اور محکمہ اینٹی کرپشن نے بھی بزدار کی اربوں روپوں کی انویسٹمنٹ کے شواہد حاصل کر لیے ہیں، جن کی بنیاد پر ان کے خلاف کارروائی جلد شروع ہونے کا امکان ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب کے فرنٹ مین کے طور پر محکمہ آبپاشی کے ایکسین عظیم بلوچ کا نام بھی سامنے آیا ہے، جب کہ عثمان بزدارکے سابق اسٹاف افسران کا بزدار اور فرح گوگی کے حوالے سے چشم کشا انکشافات کئے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت پنجاب کو سابق وزیراعلیٰ پنجاب کے دو فرنٹ مینوں سے اہم شواہد موصول ہوئے ہیں، جن کے ناموں پر بینک اکاؤنٹس ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔
یاد رہے کہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازہ خان کی تحصیل تونسہ سے تعلق رکھنے والے عثمان بزدار 2018ء میں پہلی مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ ان کا تعلق بزدار قبیلے سے ہے۔
2018 کے عام انتخابات سے قبل انہوں نے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں شمولیت اختیار کی، تاہم انتخابات سے قبل خسرو بختیار کی سربراہی میں بننے والا یہ گروپ تحریک انصاف میں ضم ہوگیا۔ سردار عثمان بزدار کے والد سردار فتح محمد خان اپنے قبیلے کے سردار تھے، وہ تین مرتبہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور انہوں نے ایک اسکول میں استاد کی حیثیت سے بھی کام کیا۔
عثمان بزدار نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے کر کیا اور 2008 تک مسلم لیگ ق کے تحصیل ناظم رہے۔ 2008 میں انہوں نے مسلم لیگ ق چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن میں حصہ لیا، تاہم وہ ناکام رہے تھے۔ 2018 کے الیکشن کے بعد عثمان بزدار بذریعہ احسن جمیل گجر عمران خان تک پہنچے اور پھر بشریٰ بی بی کی نظر کرم پڑتے ہی انہیں پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔ بعد ازاں یہ الزامات عائد ہوئے کہ عثمان بزدار صرف نام کے وزیر اعلیٰ تھے جبکہ ان کے اختیارات احسن جمیل گجر اور ان کی اہلیہ فرح گوگی استعمال کیا کرتے تھے۔