15 ضمنی الیکشن جیتنے والی نون لیگ اب کیوں ہاری؟


ضمنی الیکشن میں پنجاب کی 20 نشستوں میں سے 16 پر نواز لیگ کی شکست اس حوالے سے حیران کن ہے کہ پچھلے چند برسوں میں بطور اپوزیشن جماعت نواز لیگ نے 16 میں سے 15 ضمنی الیکشن جیتے تھے اور تحریک انصاف کے امیدواروں کو شکست دی تھی۔ لیکن 17 جولائی کے الیکشن میں سب کچھ تلپٹ ہوگیا اور تمام تر اندازے غلط ثابت ہو گئے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نواز لیگ کی عبرتناک شکست کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جن امیدواروں کو ٹکٹ دیے گئے تھے ان کا نواز لیگ سے کوئی تعلق نہیں تھا لہذا نہ تو انہیں ان کی سابقہ جماعت پی ٹی آئی کے ووٹرز نے ووٹ دیے اور نہ ہی نواز لیگ کے ووٹرز ان کے لیے باہر نکلے۔ اس کے علاوہ 2018 کے الیکشن میں نواز لیگ کے ٹکٹ پر میدان میں اترنے والے لیگی امیدوار بھی ناراض تھے اور پارٹی تقسیم ہو چکی تھی۔ الیکشن میں شکست کے بعد خواجہ سعد رفیق جیسے لیگی رہنما اب یہ جواز پیش کر رہے ہیں کہ دراصل جو سیٹیں پی ٹی آئی نے جیتی ہیں وہ ماضی میں بھی ان کی ہی تھیں لیکن ہم نے پھر بھی 20 میں سے 4 نشستیں جیت لی ہیں جو پہلے پی ٹی آئی کے پاس تھیں۔ لیکن تجزیہ کار اس تھیسس سے اتفاق نہیں کرتے چونکہ نون لیگ نہ صرف اقتدار میں تھی بلکہ نتائج سے پہلے 20 میں سے پندرہ سیٹیں جیتنے کا مسلسل دعویٰ بھی کر رہی تھی۔

سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کی شکست کی بڑی وجوہات میں پارٹی قیادت کے غلط فیصلے اور عمران خان کا بیرونی سازش کا بیانیہ مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ پنجاب کے عوام نے سابق وزیراعظم عمران خان کے بیانیے کو قبول کیا اور اس کے حق میں ووٹ دیا۔ عمران خان اپنے بیانیے پر ڈٹے رہے اور امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ پر حملہ آور رہے جب کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کا بیانیہ اپناتے ہوئے عمران خان کو کاؤنٹر کرنے کی کوشش کرتی رہی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں جب نواز لیگ اپوزیشن میں تھی تو ضمنی الیکشن جیتتی رہی اور اب جب اقتدار میں ہے تو الیکشن ہار گئی جس کی بنیادی وجہ حکومت کی جانب سے عوام پر ڈالا جانے والا مہنگائی کا بوجھ ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالانکہ پاکستان میں حالیہ مہنگائی کا طوفان عمران حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں کا نتیجہ ہے لیکن عوام نے مہنگائی کا انتقام موجودہ حکمرانوں سے لیا ہے۔ یاد رہے کہ اس سال مارچ میں عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کا خاتمہ سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی اقتدار کی تبدیلی کا محرک بنا۔ اس تبدیلی سے ان کے حامی سخت غصے میں آئے اور عمران کی جانب سے امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ پر الزامات اور تنقید کا ایک نہ تھمنے والے سلسلے کا آغاز ہوا۔

اس شدید تنقید کا دباؤ لیتے ہوئے فوجی اسٹیبلشمنٹ پہلی مرتبہ الیکشن کے دوران مکمل طور پر نیوٹرل رہی اور اس لئے کسی بھی جانب سے دھاندلی کا کوئی الزام سامنے نہیں آیا حالانکہ 2018 کے الیکشن میں عمران خان کی کامیابی کو اسٹیبلشمنٹ کی انجینئرنگ کا نتیجہ قرار دیا گیا تھا جب پورے کا پورا آر ٹی ایس سسٹم ہی بیٹھ گیا۔

عمران خان کی وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد حمزہ شہباز شریف کو وزیراعلیٰ بنانے میں تحریک انصاف کے 20 اراکین صوبائی اسمبلی نے کلیدی کردار ادا کیا، جن کی وفاداریوں کی تبدیلی نے صوبے کے نئے چیف ایگزیکٹیو کے انتخاب کو ممکن بنایا۔تحریک انصاف نے اپنے منحرف اراکین کے خلاف الیکشن کمیشن سے رجوع کیا، جہاں 20 اراکین اسمبلی کی رکنیت فلور کراسنگ کے الزام میں ختم کر دی گئی۔

منحرف اراکین کے ڈی سیٹ ہونے کے نتیجے میں پنجاب اسمبلی میں خالی ہونے والی 20 نشستوں کے لیے ضمنی انتخابات 17 جولائی کو ہوئے جن میں تحریک انصاف نے نواز لیگ کا دھڑن تختہ کر دیا اور 20 میں سے 16 نشستیں جیت لیں۔ ایسے میں حمزہ شہباز کا وزارت اعلیٰ پر برقرار رہنا ناممکن ہو گیا ہے اور چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے نئے وزیر اعلیٰ بننے جارہے ہیں جن کا انتخاب 22 جولائی کو متوقع ہے۔

سیاسی تجزیہ کار ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کی جیت کو عمران خان کے بیانیے کی کامیابی اور نواز لیگ کے بیانیے کی ناکامی قرار دیتے ہیں۔ عمران خان ہمیشہ سے اپنی مخالف سیاسی جماعتوں خصوصاً مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن گروپ پر کرپشن کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔ چند مہینے قبل انہوں نے غیرملکی سازش کے ذریعے اپنی وفاقی حکومت کے خاتمے کا بیانیہ بھی ترتیب دیااور حکومت کی تبدیلی کی مبینہ سازش میں پاکستانی اسٹیبلیشمنٹ اور سیاسی مخالفین کے ملوث ہونے کا الزام لگایا۔

اس سے پہلے مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور دوسری پی ٹی آئی مخالف جماعتیں عمران خان پر 2018 کے انتخابات میں اسٹیبلیشمنٹ کی مدد سے کامیابی حاصل کرنے کا الزام لگاتی رہی ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران کی مخالف جماعتوں نے جن قوتوں کے خلاف بیانیہ بنایا، انہی کی مدد سے عمران کو ہٹا کر خود اقتدار میں آئیں۔

ان کے خیال میں پی ٹی آئی مخالف سیاسی جماعتوں کے اس طرز عمل سے عمران خان کے کرپشن اور حکومت کی تبدیلی کے بیانیوں کو عوامی حلقوں میں تقویت اور پذیرائی ملی، جس کا انہیں ضمنی انتخابات میں فائدہ ہوا۔ عمران خان نے جو بیانیے بنائے ان پر ڈٹے رہے، اور اپنے مخالفین کے بیانیوں کو غلط ثابت کیا، جس کے نتیجے میں انہیں کامیابی نصیب ہوئی حالانکہ عمران خان فوج کے سیاسی کردار کے خلاف نہیں بلکہ انہیں اعتراض یہ ہے کہ فوج نے ان کی انگلی چھوڑ کر شہباز شریف کی انگلی کیوں پکڑ لی؟

تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین بھی عمران خان کے بیانیے کی کامیابی سے متفق نظر آتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ جس زور شور سے عمران خان نے اپنا بیانیہ عوام میں مقبول کیا، مسلم لیگ نواز اس شدت سے اپنا بیانیہ لے کر نہیں چل پائی۔

پیپلز پارٹی کے رہنما اور وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ عمران خان نے پہلے غیرملکی سازش اور بعد ازاں اپنی جان کو خطرے لاحق ہونے سے متعلق بیانیے اپنائے اور عوام کو جذباتی طور پر اپنے ساتھ ملا لیا۔سینئر صحافی سلیم صافی كے خیال میں عمران اپنے بیانیے كو لوگوں تک پہنچانے میں كامیاب ہو گئے جبكہ مسلم لیگ ن اپنی کوئی میڈیا سٹریٹیجی بھی نہ بنا سکی۔ بعض لوگوں کے خیال میں یہ سیاسی جنگ دراصل سوشل میڈیا پر لڑی گئی جس میں تحریک انصاف کو برتری حاصل تھی۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں مسلم لیگ ن کا پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کو ٹکٹ الاٹ کرنا ایک غلط فیصلہ تھا، جس نے لیگی امیدواروں کی شکست میں اہم کردار ادا کیا۔ انکے مطابق مسلم لیگ ن کے ان حلقوں میں اپنے امیدوار موجود تھے، جو جیت بھی سکتے تھے، لیکن انہیں پارٹی ٹکٹ نہیں دیے گئے۔ ان حلقوں کے عوام اور خصوصاً مسلم لیگ ن کے ورکرز ان فیصلوں کو ہضم نہیں کر پائے اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

قمر زمان کائرہ نے بھی مسلم لیگ ن کی جانب سے ضمنی انتخابات کے لیے امیدواروں کے انتخاب کو شکست کا ذمہ دار ٹھہرایا۔تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ تحریک انصاف نے ضمنی انتخابات میں پنجاب اسمبلی کی جو نشستیں جیتیں ہیں ان پر اسی جماعت کے امیدوار 2018 میں کامیاب ہوئے تھے۔

یہ تحریک انصاف ہی کی خالی کی ہوئی نشستیں تھیں اور انہوں نے ہی واپس جیت لیں لیكن مسلم لیگ ن كے وركرز كے ردعمل كو نظر انداز نہیں كیا جا سكتا۔ کائرہ کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کو اقتدار میں آنے کے فورا ًبعد چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے سخت معاشی فیصلے کرنے پڑے۔ عمران حکومت گرانا ان کا بظاہر ہدف نمبر ایک تھا لیکن اس کے بعد حکومت کیسے چلانی ہے اس کی تیاری نہیں تھی۔ اسی لیے اہم اقتصادی اور دیگر فیصلوں میں تاخیر ہوئی۔ وزیر اعظم کے مشیر قمر زمان کائرہ نے قبول کیا کہ ان کی وفاقی حکومت مہنگائی کے طوفان کو کنٹرول کرنے میں فی الحال ناکام رہی ہے اور ضمنی انتخابات میں اس فیکٹر نے بھی ایک کردار ادا کیا حالانکہ اس مہنگائی کی اصل وجہ عمران خان کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ کیا جانے والا معاہدہ تھا۔

Related Articles

Back to top button