نون لیگ کو لوٹوں نے نہیں بلکہ مہنگائی نے الیکشن ہروایا


معروف صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے خود کو تسلی دینے کے لئے مسلم لیگ ن کی قیادت اب یہ تاویل گھڑ رہی ہے کہ 17 جولائی کے الیکشن میں حیران کن شکست دراصل انکی جماعت کو نہیں بلکہ تحریک انصاف کے ان ’’لوٹوں‘‘ کو ہوئی جنہیں حمزہ شہباز کی حکومت برقرار رکھنے کے لئے مجبوری میں پارٹی ٹکٹ دیے گئے تھے، لیکن ن لیگ کے دیرینہ ووٹروں نے اس فیصلے کو مسترد کر دیا اور ووٹ دینے کے بجائے گھر بیٹھے رہنے کو ترجیح دی۔ مسلم لیگی قیادت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر وہ اپنے وفاداروں کو میدان میں اتارتی تو نتائج بالکل مختلف ہوتے۔ لیکن نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ یہ تاویل ہر اعتبار سے بودی اور ناقص ہے کیونکہ مسلم لیگ (نون) کی حیران کن شکست کا بنیادی سبب ’’لوٹے‘‘ نہیں بلکہ جان لیوا مہنگائی ہے۔ عام پاکستانی اب تک یہ سمجھ ہی نہیں پا رہا کہ عمران خان کی اقتدار سے رخصتی کے بعد کونسا عذاب نازل ہوگیا ہے جسکی وجہ سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کے طویل دورانیے کئی برسوں بعد واپس لوٹ آئے اور پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں آسمان کو چھونا شروع ہو گئیں، اسی طرح بجلی اور گیس کے نرخوں میں بھی مسلسل اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ چنانچہ عوام یہ حقیقت تسلیم کرنے کو ہرگز تیار نہیں کہ یہ حادثہ ’’ایک دم‘‘ ہوا ہے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیہ میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ معاشی میدان میں جو افسردگی نظر آرہی ہے وقت اس کی برسوں سے پرورش کررہا تھا۔ رواں برس کے فروری کے آخری ہفتے میں روس کے یوکرین پر حملہ آور ہوجانے کے باوجود مسلم لیگ نون عمران کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے فارغ کروانے کی تڑپ میں مبتلا رہی۔ اس تحریک کو ہر صورت ’’29 مئی 2022‘‘سے قبل کامیاب کروانا لازمی تصور کرلیا گیا۔خلق خدا کو اد تاریخ کی اہمیت کی بابت ہرگز اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ یہ تاریخ ایک اہم ریاستی عہدے پر تعیناتی اور اس کے ممکنہ اثرات کو اپوزیشن جماعتوں کے سرکردہ رہنما فقط ڈرائنگ روموں ہی میں زیر بحث لاتے رہے۔ عوام یہ سمجھ ہی نہ پائے کہ اس دن کے بعد کونسی قیامت برپا ہوجانا تھی جسے ’’ٹالنے‘‘ کے لئے گیارہ جماعتیں یکسو ہو کر ’’اکیلے‘‘ عمران خان کے خلاف صف آرا ہوگئی ہیں۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ کوئی پسند کرے یا نہیں عمران خان نے اپنے خلاف ہوئی محلاتی سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ میں ذاتی طورپر ’’امریکی سازش‘‘ کو ان کی فراغت کا سبب نہیں ٹھہراتا۔ تحریک انصاف کے دیرینہ متوالے مگر اس سازشی کہانی کو دل وجان سے اپناچکے ہیں۔ ’’میر جعفر‘‘ کی بابت بنائی داستان بھی انہیں بہت بھائی ہے۔ روایتی اور سوشل میڈیا کے جارحانہ استعمال کے ذریعے عمران خان صاحب اپنے بیانیے کو روزانہ کی بنیاد پر ورد کی طرح دہراتے رہے۔ ان کی جگہ حکومت میں آئے شہباز شریف اور ان کے وزراء کوئی طاقت ور جوابی بیانیہ تیار کرنے میں قطعاًناکام رہے۔

عمران خان کی جگہ آنے والی حکومت کی کامل توجہ آئی ایم ایف کو رام کرنے تک محدود رہی۔ پاکستان کو امدادی رقم فراہم کرنے پر آمادگی سے قبل اس نے شہباز حکومت کو ایسے کئی فیصلے لینے کو مجبور کیا جس نے عوام کی روزمرہ زندگی کو اجیرن بنادیا۔ دوسری جانب ہمارے ’’دوست‘‘ اور ’’برادر‘‘ ممالک بھی خاطر خواہ مالی امداد فراہم کرنے سے گریز کے عالم میں رہے۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ شہباز شریف اور ان کے وزراء نے آج تک یہ حقیقت لوگوں کے روبرو لانے کی جرأت بھی نہیں دکھائی ہے کہ ’’مقتدر حلقوں‘‘ نے انہیں رواں مالی برس کا بجٹ تیار کرنے سے قبل یہ پیغام بھجوادیا تھا کہ بجٹ منظور کروالینے کے بعد رواں برس کے اکتوبر میں عام انتخاب کے لئے تیار رہنا ہوگا۔اس کے ایک ماہ بعد یعنی نومبر 2022 میں آرمی چیف کی تعیناتی کی بابت فیصلہ ہونا ہے۔ مقتدر حلقوں کی خواہش تھی کہ یہ فیصلہ ’’صاف ستھرے‘‘ انتخاب کے ذریعے قائم ہوئی نئی حکومت کا وزیر اعظم کرے۔ لیکن شہباز شریف یہ پیغام ملنے کے بعد گھبرا گئے۔ انہیں خوف لاحق ہوگیا کہ آئی ایم ایف کو ہر صورت رام کرنے والا بجٹ تیار کرنے کے چند ہی ہفتوں بعد وہ اگر عوام سے ووٹ کے طلب گار ہوئے تو ان کی جماعت کو ذلت آمیز شکست سے دو چار ہونا پڑے گا۔ اپنے وزراء سمیت لندن چلے گئے۔ چنانچہ لندن میں مسلم لیگ (نون) کے حتمی فیصلہ ساز نواز شریف کے ساتھ طویل مشاورت ہوئی۔ بالآخر فیصلہ یہ ہوا کہ عوام کو اذیت دینے والا بجٹ پیش کردیا جائے۔اس کی منظوری کے بعد مگر نئے انتخاب کے انعقاد کے لئے اگلے برس کے اگست تک ہر صورت اقتدار ہی میں رہنا ہوگا۔ لیکن یہ فیصلہ عوامی جذبات سے قطعاًغافل دکھائی دیا۔

چنانچہ 17 جولائی کو آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ضمنی انتخاب نہیں بلکہ ’’ریفرنڈم‘‘ ہوا۔ اب 22جولائی کو تحریک انصاف کے نامزد شدہ پرویز الٰہی اس صوبے کے وزیر علیٰ منتخب ہوجائیں گے اس کے بعد عمران خان کے لئے سیاسی اعتبار سے لازمی ہوجائے گا کہ وہ لاہور کو مرکز بناتے ہوئے اسلام آباد پر لانگ مارچ کی تیاری کریں اور اس شہر پہنچ جانے کے بعد نئے انتخاب کی تاریخ لے کر ہی واپس جائیں۔رانا ثناء اللہ کے لئے پنجاب اور خیبر پختونخوا سے آئی عوامی یلغار کے آگے بند باندھنا ناممکن ہوجائے گا۔ ایسے میں بہتر یہی ہے کہ شہباز ازخود وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوجائیں۔ ان کے ’’اتحادی‘‘ اس کے لئے رضا مند نہ ہوں تو موجودہ قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے بجائے کسی اور شخص کو وزیر اعظم منتخب کرنے پر مجبور کریں۔ نصرت جاوید کہتے ہیں کہ یہ قدم اٹھائے بغیر مسلم لیگ (نون) کی سیاسی عمل میں گج وج کر بحالی آئندہ کئی مہینوں تک ناممکن ہو جائے گی۔

Related Articles

Back to top button