شجاعت اور پرویز خاندان اگلے الیکشن میں آمنے سامنے


وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے جنم لینے والے سیاسی بحران نے نہ صرف گجرات کے چوہدری خاندان اور مسلم لیگ (ق) کی قیادت کو واضح طور پر تقسیم کر دیا ہے بلکہ گجرات کی مقامی سیاست میں بھی نئی سیاسی صف بندیوں کو جنم دے دیا ہے۔ چنانچہ اب یہ امکان پیدا ہو گیا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین کے خاندان کی نئی نسل اگلے الیکشن میں ایکدوسرے کے آمنے سامنے ہو گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے وزارت اعلیٰ پنجاب کے لیے چوہدری پرویز الٰہی کی بجائے حمزہ شہباز کی حمایت کے بعد اب دونوں خاندانوں کے درمیان پڑنے والی خلیج بھرناممکن نہیں اور اب دونوں خاندانوں کی سیاست بھی علیحدہ ہو جائے گی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چوہدری شجاعت کے صاحبزادے سالک حسین اور شافع حسین کے آبائی شہر گجرات سے مستقبل کی سیاست کرنے کی صورت میں شجاعت کیمپ کو گجرات میں اپنے پرانے سیاسی دشمنوں کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے جبکہ پرویز الٰہی کیمپ کو پہلے ہی تحریک انصاف کی بیشتر شخصیات کی حمایت حاصل ہے۔ ایسے میں آئندہ الیکشن کے دوران گجرات میں کزن بمقابلہ کزن مقابلے کے قوی امکانات دیکھ جا رہے ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ شجاعت حسین کی جانب سے حمزہ شہباز کی حمایت کے فیصلے نے گجرات میں ان کی سیاست کو کاری ضرب لگائی ہے کیونکہ انہوں نے اپنے خاندان کی بجائے شریف خاندان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔

دوسری جانب چودھری شجاعت کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ پرویز الٰہی نے آخری عمر میں اپنے بڑے بھائی کو چھوڑ کر عمران خان کو اپنا قائد بنانے کا جو سیاسی بلنڈر کیا ہے اس کی انہیں بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پرویز الٰہی سے علیحدہ ہونے کے بعد چودھری شجاعت کے خاندان کو سیاسی مشکلات کا سامنا تو ہوگا لیکن انہیں گجرات میں اپنے روایتی حریفوں سے کچھ نئے اتحادی مل سکتے ہیں کیونکہ نوابزادہ، کائرہ اور پگن والا خاندانوں سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے حمزہ شہباز کے لیے شجاعت حسین کی حمایت کی تعریف کی ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے کارکنوں نے پارٹی سربراہ اور ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے مسلم لیگ (ق) کے ووٹ منسوخ کرنے کے فیصلے کے خلاف مظاہرے بھی کیے ہیں اور آئندہ الیکشن میں چوہدری شجاعت کے خاندان کی مخالفت کا اعلان کیا ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے کچھ کارکنوں نے گجرات کے چوہدریوں کی رہائش گاہ ظہور الہٰی ہاؤس کے سامنے احتجاج بھی کیا اور پارٹی سربراہ اور وفاقی کابینہ کے رکن ان کے بیٹے سالک حسین کے خلاف نعرے بازی کی۔ تاہم گجرات کے سیاسی حلقوں میں یہ تاثر بھی تقویت پکڑ رہا ہے کہ پرویز الٰہی کو عمران خان کی محبت میں چوہدری شجاعت کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔

یاد رہے کہ اگرچہ چوہدری شجاعت حسین نے 2008 میں پی پی پی کے چوہدری احمد مختار (مرحوم) کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد اپنے آبائی حلقے گجرات سٹی این اے 69 سے کوئی الیکشن نہیں لڑا، تاہم ان کے بڑے بیٹے شافع حسین اگلے انتخابات میں اس شہر سے الیکشن لڑنے کے لیے لابنگ کر رہے ہیں۔ 20118 میں چوہدری سالک حسین چکوال کی ایک قومی اسمبلی کی نشست سے تب ضمنی انتخاب جیت گئے تھے جب پرویز الہٰی نے گجرات اور چکوال اضلاع سے جیتی ہوئی قومی اسمبلی کی دونوں نشستیں چھوڑ دی تھیں، تاکہ وہ کنجاہ گجرات سے اپنی پنجاب اسمبلی کی نشست برقرار رکھ سکیں۔ بعد میں پرویز الٰہی سپیکر پنجاب اسمبلی بن گئے تھے۔

پرویز الہٰی نے گزشتہ دو الیکشن این اے 69 گجرات سے لڑے تھے جو اب ان کے بیٹے مونس الہٰی کے پاس ہے۔ بنیادی طور پر این اے 69 وہ حلقہ ہے جہاں چوہدری ظہور الہٰی مرحوم اور پھر ان کے بیٹے چوہدری شجاعت حسین نے 1970 سے الیکشن لڑا تھا اور اب پرویز الہٰی اور مونس الہٰی یہاں خاندانی سیاست کی قیادت کر رہے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سابق چوہدری احمد مختار اور چوہدری احمد سعید کا پگن والا گروپ اور سروس گروپ 2013 تک اس حلقے میں چوہدریوں کے اہم سیاسی حریف رہے تھے۔ تاہم ظہور الہٰی کو شکست دینے والے سابق ایم این اے میاں مشتاق حسین پگن والا کی موت اور پھر احمد مختار اور احمد سعید کے انتقال نے چوہدریوں کے حریف کیمپوں کو کمزور کر دیا تھا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سالک حسین اور شافع حسین کے آبائی شہر سے انتخابی سیاست کرنے کی صورت میں شجاعت کیمپ کو گجرات میں پرانے دشمنوں کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے جبکہ پرویز کیمپ کو پہلے ہی مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف کی بیشتر شخصیات کی حمایت حاصل ہے۔

یاد رہے کہ وزیراعظم کے مشیر قمر زمان کائرہ، پیپلز پارٹی کی سابق ایم این اے ثمینہ پگن والا اور مسلم لیگ (ن) کے ضلعی صدر طاہر الملک، گجرات میونسپل کارپوریشن کے سابق میئر حاجی ناصر محمود اور سابق ایم پی اے سٹی سے مسلم لیگ (ن) کے حاجی عمران ظفر نے مسلم لیگ (ق) کے سربراہ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ملک کو بحران سے بچانے کے لیے ایک دانشمندانہ قدم قرار دیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کی جانب سے شجاعت کی حمایت پرویزالٰہی کے لیے پریشان کن ہو گی کیونکہ یہ گجرات میں سیاست کے ایک نئے دور کا اشارہ دے رہی ہے۔

Related Articles

Back to top button