انسانی سمگلروں کی ہوس زر نے مزید 7 زندگیاں نگل لیں

آنکھوں میں بہتر مستقبل کے سہانے خواب سجائے ایران کا سفر کرنے والے گوجرانوالہ کی تحصیل وزیر آباد کے ایک ہی خاندان کے 7 افراد تب اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جب سفاک انسانی سمگلرز چند ہزار روپوں کی خاطر انھیں تپتے صحرا میں بےیار و مددگار چھوڑ کر بھاگ گئے۔
پنجاب کے وسطی شہر گوجرانوالہ کی تحصیل وزیر آباد سے تعلق رکھنے والے رانا زاہد حسین کے سات میں سے تین افراد ضلع چاغی میں غیر روایتی راستوں سے ایران جانے کی کوشش کے دوران بھوک و پیاس کی کی وجہ سے جان کی بازی ہار گئے۔ لیکن گھر والوں کو ان کی موت کا علم تین ہفتے بعد تب ہوا جب ان میں سے ایک شخص کے شناحتی کارڈ کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔

صحرا میں موت کا شکار ہونے والے خاندان کے افراد کا کہنا ہے کہ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ انکے پیارے اس اذیت ناک انجام سے دوچار ہوں گے تو وہ انہیں کبھی بھی اس سفر پر نہ جانے دیتے۔ بی بی سی کی ایک اپورٹ کے مطابق یہ سات افراد ایک بہتر مستقبل کا خواب لے کر پنجاب سے روانہ ہوئے تھے لیکن ویزے کی حصول میں مشکلات کی وجہ سے انھوں نے ان غیر روایتی راستوں کا انتخاب کیا تھا جہاں سے انسانی سمگلرز لوگوں کو غیر قانونی طور پر لے جاتے ہیں۔

مرنے والوں کے ایک رشتہ دار کے مطابق صحرا میں ایڑیاں رگر کر مرنے والوں میں سجاد علی، اسکا ایک چچازاد بھائی، دو ماموں زاد بھائی، ایک بھانجا اور دو قریبی رشتہ دار شامل تھے۔ یہ لوگ تین اگست کو گوجرانوالہ سے روانہ ہوئے اور چاغی پہنچنے کے بعد پانچ اگست کو ایران کی جانب روانہ ہوئے تھے۔ رانا زاہد حسین کے بقول ان کے بھائی سجاد کی کوئٹہ کے ایک ایجنٹ سے بات ہوئی تھی اور معاملہ گیارہ ہزار روپے فی کس کے حساب سے طے ہوا تھا۔ دیل یہ تھی کہ وہ ایجنٹ انھیں تفتان کے بارڈر سے ایران مین داخل کروا دے گا۔ رانا زاہد کا کہنا تھا کہ ان کا بھائی سجاد اور بھانجا محمد بلال اور ایک اور رشتہ دار محمد خلیق دیگر سات افراد کے ہمراہ پانچ اگست کو کوئٹہ پہنچے جہاں پر ان کی ملاقات ایجنٹ سے ہوئی جو انھیں گاڑی کے ذریعے نوکھنڈی کے راستے تافتان بارڈر کی طرف لے کر گئے۔ راستے میں ان دس افراد نے اس ایجنٹ کو گیارہ ہزار روپے فی کس کے حساب سے ادا کیے تو رانا زاہد کے بقول ایجنٹ نے کہا کہ اس کا سودہ تو 35 ہزار روپے فی کس کے حساب سے ہوا تھا۔ انھوں نے کہا کہ بحث و تکرار کے بعد اس ایجنٹ نے ایک لاکھ دس ہزار روپے رکھ لیے اور پھر کچھ دور جانے کے بعد ان تمام افراد کو یہ کہہ کر گاڑی سے اتار دیا کہ وہ کچھ دیر کے لیے یہاں رکیں، وہ دوسرے لوگوں کو لے کر آتا ہے۔

رانا زاہد حسین کے بقول ایجنٹ نے قسمیں کھا کر ان دس افراد کو یقین دہانی کرائی کہ وہ دیگر افراد کو لے کر ان کے پاس آدھے گھنٹے میں پہنچ جائے گا۔ یہ دس افراد اس ایجنٹ کا انتظار کرتے رہے اور آدھا گھنٹہ تو کیا، وہ اگلے چھتیس گھنٹوں میں بھی نہیں آیا۔ رانا زاہد حسین کے بقول ان افراد کے پاس کھانے پینے کا بھی کوئی سامان نہیں تھا اور جو تھوڑا بہت سامان ان کے پاس تھا وہ ایجنٹ اپنی گاڑی میں ہی لے گیا تھا۔اس دوران سات اگست کو جب ان افراد کو بھوک اور پیاس ستانے لگی تو وہ کھانے کی تلاش میں دو، دو کر کے مختلف سمتوں میں چلے گئے لیکن کچھ دور جا کر جلد ہی ناکام ہو کر واپس آ گئے کیونکہ ان میں آگے جانے کی سکت نہیں تھی۔ رانا زاہد کا کہنا تھا کہ ان کے بھائی سجاد جو کہ عارضہ قلب میں مبتلا تھے ان کی حالت خراب ہو گئی اور وہ بھوک اور پیاس کی شدت کو برداشت نہ کرتے ہوئے چل بسے۔ رانا زاہد کا کہنا تھا کہ ان لوگوں نے وہیں پر ایک گڑھا کھود کر سجاد کی میت کو دفنا دیا اور ایک جانب چل پڑے۔ کچھ گھنٹوں کے بعد ان کا ایک اور رشتہ دار محمد خلیق بھی بھوک کی شدت کو برداشت نہ کرتے ہوئے دم توڑ گیا۔ ان تمام افراد کی جینے کی امیدیں ختم ہو رہی تھیں اور ان کے بھانجے محمد بلال کی طبیعت بھی بگڑ چکی تھی کیونکہ اس نے اپنے ماموں اور رشتہ دار کو اپنے سامنے مرتے دیکھا تھا۔ بچ جانے والے افراد سخت دھوپ میں صحرا میں بیٹھے ہوئے اپنی موت کا انتظار کرنے لگے کہ اس دوران ایک گاڑی وہاں سے گزری جس کو انھوں نے اشارہ کر کے روکا۔ گاڑی میں موجود افراد نے پہلے تو خلیق کی میت کو وہیں پر دفنایا اور باقی افراد کو گاڑی میں ڈال کر نوکھنڈی لے گئے۔ بلال کو ہسپتال میں داخل کروایا گیا جہاں وہ بھی زندگی کی بازی ہار گیا۔

رانا زاہد حسین کے مطابق اس عرصے کے دوران انھوں نے ایجنٹ سے بھی متعدد بار رابطہ کیا تھا لیکن اس نے فون کا جواب ہی نہیں دیا جس کی وجہ سے ان کے گھر والوں کو تشویش ہوئی۔ اس دوران بلوچستان کے مقامی صحافیوں نے سوشل میڈیا پر محمد خلیق کے شناختی کارڈ کی کاپی شیئر کی۔ صورتحال جاننے کے بعد محمد خلیق کے رشتہ دار بلوچستان پہنچ گئے اور مقامی شخص کی مدد سے اس کی لاش کو تلاش کر کے میت کو آبائی علاقے میں لا کر دوبارہ سپرد خاک کیا گیا۔ تاہم یہ واقعہ ان سادے پاکستانیوں کے لیے ایک سبق ہے جو اپنی سرزمین چھوڑ کر دوسرے ملک پہنچنے کے خواب دیکھتے ہیں اور بے حس ایجنٹوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں۔

Related Articles

Back to top button