پنجاب میں گورنرراج لگنے کا کوئی امکان کیوں نہیں ہے؟


پنجاب میں گورنر راج لگانے کی افواہوں کے باوجود آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کے لیے ایسا کرنا ناممکن ہو چکا ہے کیونکہ صوبائی اسمبلی کی منظوری کے بغیر گورنر راج نہیں لگایا جا سکتا۔ آئینی اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر وفاق کے لیے گورنر راج لگانا اتنا آسان ہوتا تو پیپلزپارٹی سے نفرت کرنے والے عمران خان نے اپنے دور حکومت میں سندھ میں گورنر راج نافذ کر دیا ہوتا۔

آئینی اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ آصف زرداری کے دور حکومت میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد گورنر راج لگانے کا طریقہ کار تبدیل ہوچکا ہے۔ گورنر راج یا صوبے میں ایمر جنسی نافذ کرنے سے متعلق آئین کے آرٹیکل 232 سے 235 تک کی نئی وضاحت کی گئی تھی۔ بنیادی طور پر گورنر راج کا مقصد وقتی طور پر صوبے کا نظام وفاق کے سپرد کرنا ہوتا ہے اور وزیر اعلیٰ کے اختیارات گورنر کو منتقل کر دیے جاتے ہیں، تاہم زرداری دور میں آئین میں کی جانے والی اٹھارہویں ترمیم کے بعد گورنر راج کے نفاذ کو متعلقہ صوبے کی اسمبلی کی منظوری سے مشروط کر دیا گیا تھا۔ آئین کی شق 232 کے مطابق اگر ملک کی سلامتی جنگ یا کسی اندرونی اور بیرونی خدشے کے پیش نظر خطرے میں ہو اور اس کا سامنا صوبائی حکومت نہ کر سکتی ہو تو صدر مملکت ایمرجنسی نافذ کر کے گورنر راج لگا سکتے ہیں۔ تاہم اس کی شرط یہ ہے کہ متعلقہ اسمبلی سادہ اکثریت سے ایک قرارداد کے ذریعے گورنر راج لگانے کی منظوری دے۔ اگر اسمبلی سے منظوری نہ ملے تو پھر گورنر راج لگانے کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں سے منظوری حاصل کرنا ضروری ہے۔

آئینی ماہرین بتاتے ہیں کہ سب سے پہلے ہنگامی حالت کے نفاذ کے لیے متعلقہ صوبائی اسمبلی کی قرارداد صدر کو بھیجی جاتی ہے۔ اگر صدر خود ہنگامی حالت نافذ کرتا ہے تو پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے سامنے اپنا فیصلہ توثیق کے لیے پیش کرنے کا پابند ہوگا۔ اس کے علاوہ وفاق کو بھی کسی صوبے میں امن و امان کی صورت حال یا صوبائی حکومت چلانے میں ناکامی کو جواز بنا کر گورنر راج لگانے کا اختیار حاصل ہے لیکن اس کے لیے اسے متعلقہ صوبائی اسمبلی سے منظوری یا قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری حاصل کرنا ہو گی ہے۔

آئینی ماہرین کے مطابق کسی بھی صوبے میں گورنر راج تب تک نافذ نہیں ہو سکتا جب تک اسکا وزیراعلٰی نہ کہے کہ صوبے کے حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ حکومت نہیں کی جا سکتی، اور اگر صوبے کا وزیراعلٰی وزیراعظم سے گورنر راج لگانے کا نہ کہے تو وفاق صوبے میں گورنر راج نافذ نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلٰی کی اپنی اسمبلی سے بھی اس کی منظوری لینا ضروری ہے۔ سابق اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر راج لگانے کے لیے آئین میں واضح ہے کہ وفاقی حکومت صوبائی اسمبلی اور وزیراعلٰی کی مرضی کے بغیر گورنر راج نافذ نہیں کر سکتی۔

آئینی اور قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ وفاق کے پاس کسی صوبے میں ایمرجنسی لگانے کا اختیار موجود ہے لیکن اس کے لیے ٹھوس وجوہات ہونا بھی ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت اگر وفاق پنجاب میں گورنر راج لگاتا ہے تو یہ صرف سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل ہی ہوگا۔ دوسری صورت معاشی ایمرجنسی کو جواز بنانا ہے لیکن معاشی ایمرجنسی کسی ایک صوبے میں لگ نہیں سکتی اس کے لیے پورے ملک میں معاشی ایمرجنسی ڈکلیئر کرنا ہوگی۔ ماہرین کے بقول اسوقت وفاقی حکومت کے پاس کوئی ایسا جواز نہیں کہ گورنر راج نافذ کیا جائے۔

قانونی ماہر اور جے یو آئی ف کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے اس معاملے پر بتایا کہ گورنر راج لگانے کے لیے وفاق کے پاس اختیار تو موجود ہے لیکن اس کی کچھ شرائط ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گورنر راج کے نفاذ کے لیے صدر مملکت بڑا کردار ادا کرتے ہیں لیکن اس وقت عارف علوی چونکہ عمران کے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں لہذا وہ پنجاب میں گورنر راج نہیں لگنے دیں گے۔ اس لیے میرا وفاقی حکومت کو مشورہ ہے کہ اس پر سوچ سمجھ کر کام کرنا چاہیے۔ اس معاملے پر سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں انتظامی فیصلوں کی بجائے صرف سیاسی فیصلے ہی سیاست بچانے کا واحد حل ہیں لہذا انتظامی اقدامات سے گریز کیا جانا چاہئے۔

Related Articles

Back to top button