کیا فوج ‘پراجیکٹ عمران’ کی ناکامی کے بعد واقعی توبہ کر چکی؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے جنرل قمر باجوہ کے رخصت ہونے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کا عمران خان سے عشق کا بخار اترنے کے بعد یہ بہترین وقت ہے کہ ادارے کے اندر خود احتسابی کے عمل کا آغاز کیا جائے کیونکہ جو سہانے خواب تبدیلی کے نام پر سجائے گئے تھے اور جو امیدیں عمران سے وابستہ کی گئی تھیں وہ نہ صرف چکنا چور ہو گئیں بلکہ فوج پر ایسی الٹی پڑیں کہ جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں انصار عباسی کہتے ہیں کہ پراجیکٹ عمران دراصل آئی ایس آئی نے اپنے سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا کے دور میں شروع کیا۔ اس منصوبے کو اگلے سربراہ جنرل ظہیر لاسلام کے زمانے میں تقویت ملی اور 2014 میں ڈی چوک دھرنے کا ڈرامہ رچایا گیا، اسکے بعد جو کسر باقی رہ گئی تھی وہ جنرل باجوہ کی زیر قیادت جنرل فیض حمید نے پوری کر دی اور یوں پراجیکٹ عمران مکمل ہو گیا اور خان صاحب وزارت عظمی پر بٹھا دیے گئے۔ انکا کہنا ہے کہ نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے نکالنے میں چند ججوں نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا جو آج عوام میں نہیں جا سکتے، نواز شریف کو فارغ کرنے کے لیے عدلیہ نے ایک واٹس ایپ جے آئی ٹی بنائی، اور 2018 کے الیکشن کو آر ٹی ایس سسٹم بٹھا کر ایسے مینج کیا گیا کہ عمران خان الیکشن جیت گئے۔ لیکن فیض حمید کی زیر نگرانی حکومت تشکیل پانے کے بعد بھی اسے چلانے اور بچانے کے لیے چار برس تک اپوزیشن قیادت کیخلاف ہر طرح کے گندے کھیل کھیلے گئے۔
انصار عباسی کہتے ہیں کہ عمران خان کے عشق میں مبتلا اسٹیبلشمنٹ نے اپنے اُس وقت کے پیارے اینکرز اور یوٹیوبرز کے ذریعے اس بیانیہ پر کام کیا کہ پاکستان بچانے کے لیے صرف اور صرف عمران خان ضروری ہے، اور یہ کہ باقی سب سیاستدان چور اور ڈاکو ہیں۔ اس جھوٹے بیانیے کو فروغ دینے کے لیے میڈیا مینجمنٹ کی گئی، اپنی مرضی کے سچ کو بیان کیا گیا اور نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کی کردار کشی کی گئی۔ عمران خان کو الیکشن جتوایا گیا تو انہوں نے پنجاب میں عثمان بزدار اور خیبر پختونخوا میں محمود خان کی شکل میں بزدار پلس کو وزرائے اعلیٰ بنا دیا۔ لیکن جوں جوں عمران حکومت آگے بڑھتی گئی توں توں اسٹیبلشمنٹ کے عمرانی عشق کا بخار اترتا گیا۔ عمران نے جو وعدے کئے وہ وزیراعظم آفس میں داخل ہوتے ہی بھول گئے۔ بہترین طرز حکمرانی کے خواب، پولیس اور سول سروس کو غیر سیاسی کرنے کا عہد اور نعرے سب کے سب دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اس دوران اسٹیبلشمنٹ نے ہر ممکن کوشش کی کہ بہتری لانے میں عمران کی مدد کی جائے، فوج نے اس مقصد کے لیے حکومت کے بہت سے کام اپنے ذمہ لے لئے، معاشی استحکام کے لئے جنرل باجوہ خود ایک دوست ملک سے دوسرے دوست ملک جاتے رہے لیکن عمران کا بحیثیت وزیراعظم رویہ حیران کن تھا۔ اقتدار کے چار برسوں میں اسٹیبلشمنٹ یہ شکایت کرتی رہی کہ خان صاحب اپنی گھر والی کے علاوہ کسی کی نہیں سنتے، موصوف ضدی ہیں اور اپنی ساری انرجی ’چور ڈاکو، چور ڈاکو‘ کا اپوزیشن مخالف بیانیہ بنانے پر خرچ کر رہے ہیں حالانکہ ان کو حکومت بھی مل چکی ہے۔ لیکن جب عمران خان نے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی پر جھگڑا کیا تو باجوہ اور خان کے راستے جدا ہو گئے۔
انصار عباسی کہتے ہیں کہ اس کے باوجود دونوں مجبوری میں ساتھ چلتے رہے، تاہم جب عمران حکومت چلی گئی تو خان نے اسی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ جسکی مثال ملنا مشکل ہے ۔ وہ یوٹیوبرز، اینکرز اور صحافی جو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر عمران کے’’ تبدیلی‘‘ کے خواب میں عوام کو مسحور کرتے رہے، تحریک انصاف کی حکومت جانے کے بعد اُسی اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے۔ وہ یہ کہتے رہے کہ ہمیں پہلے دستاویزات دکھا دکھا کر یقین دلوایا گیا کہ نواز، شہباز سب چور ہیں، ڈاکو ہیں لیکن اب اُنہی کو ملک پر پھر سے مسلط کر دیا گیا ہے۔ جو کچھ گزشتہ آٹھ مہینوں کے دوران فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہوا اُس نے پاکستانی فوج کے امیج کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ اب جنرل باجوہ کی جانے اور جنرل عاصم منیر کے نیا آرمی چیف بننے سے اسٹیبلشمنٹ میں بڑی تبدیلی آ چکی ہے۔ ایسے میں امید کی جا سکتی ہے کہ پروجیکٹ عمران کھڑا کرنے والی اسٹیبلشمنٹ نے ضرور سبق سیکھا ہو گا اور ماضی کی غلطیاں اب نہیں دہرائی جائیں گی۔
انصار عباسی کہتے ہیں کہ ہمارا کوئی حال نہیں، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم ایسی لڑائیوں اور بحثوں میں پھنسے ہوئے ہیں جو ہمیں روز بروز تباہی کی طرف لے جا رہی ہیں۔ ہماری معیشت انتہائی خستہ حال ہے ، ہمارا طرز حکمرانی نہایت خراب، نہ انصاف کی فراہمی نہ کوئی میرٹ۔ کاش ہم نے قوم کے لئے ایک کے بعد ایک ـ’’ہیرو‘‘ تراشنے کی بجائے اداروں کو مضبوط بنانے کے لئے کام کیا ہوتا، اپنے سسٹمز ٹھیک کئے ہوتے، قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا ہوتا، پولیس اور سول سروس کو غیر سیاسی کیا ہوتا، ججوں کی تعیناتی کا نظام بہتر بنایا ہوتا تو آج بحیثیت قوم ہم کہیں اور کھڑے ہوتے۔ بہت وقت ضائع کر دیا۔ اب تو ہماری اسٹیبلشمنٹ کو ہوش کے ناخن لینےچاہئیں ،اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔