شہباز کابینہ شیطان کی آنت کی طرح کیوں بڑھنے لگی؟

ملک کی دگرگوں معاشی صورتحال میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی مہنگائی کے ساتھ وزیر اعظم شہباز شریف کی پھیلتی ہوئی کابینہ تنقید کی زد میں ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ عوام کو پیٹ کاٹنے کا مشورہ دینے والے حکمران اپنی عیاشیوں پر بھی توجہ دیں، ایک طرف عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں جبکہ دوسری طرف حکومتی کابینہ شیطان کی آنت کی طرح بڑھتی جا رہی ہے۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے سات مزید معاونینِ خصوصی کی تقرری کے بعد سے کابینہ کی کل تعداد 86 ارکان تک پہنچ چکی ہے۔ ملک کو درپیش معاشی بحران کے دوران مزید تقرریاں ہونے پر اس وقت سخت تنقید کی جارہی ہے۔ جہاں چند لوگ اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ ان تقرریوں کی منطق کیا ہے، وہیں یہ سوال بھی کیے جارہے ہیں کہ ایک معاونِ خصوصی پر حکومت کتنا خرچہ کرتی ہے؟یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ معاون خصوصی کون ہوتا ہے؟معاونِ خصوصی ٹیکنوکریٹ ہوتے ہیں جن کو ایک مخصوص مقصد کے لیے حکومت کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ اور ان کے لیے عام انتخابات میں شامل ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ تمام تر معاونینِ خصوصی بنیادی طور پر اپنے اپنے شعبہ کے ماہر ہوتے ہیں۔

پاکستان کے آئین کے مطابق وزیرِ اعظم ایک وقت میں چار سے زیادہ مشیر نہیں رکھ سکتے لیکن معاونینِ خصوصی کی کوئی تعداد یا حد مقرر نہیں ہے۔اور زیادہ تر یہ دیکھا گیا ہے کہ ان ارکان کا کسی خاص شعبے سے ہونا بھی لازمی نہیں سمجھا جاتا اور وزیرِ اعظم کی جانب سے یہ تقرریاں ان کے عہدوں کی نشاندہی کیے بغیر کردی جاتی ہیں۔ اس کی مثال حالیہ دنوں میں ہونے والی سات تقرریاں ہیں جن میں ان تمام معاونینِ خصوصی کے عہدوں کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔ جس سے ان کے عہدوں کے بارے میں ابہام پایا جاتا ہے۔مثال کے طور پر حکومت کے ایک ترجمان نے بتایا کہ معاونینِ خصوصی کی تقرری کے بعد کابینہ ان کے قلمدان یا ’پورٹ فولیو‘ طے کرتی ہے اور اس کا اعلامیہ جاری کرتی ہے۔ تاہم حالیہ دنوں میں مقرر ہونے والے ان معاونینِ خصوصی کے پورٹ فولیوز کے بارے میں اب تک کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا ہے۔جبکہ حکومت کی جانب سے ان سات معاونینِ خصوصی کے ناموں کے نیچے لکھا ہے کہ یہ ’پرو بونو یعنی عوامی بہبود کی تقرریاں ہیں۔

دوسری طرف حکومتی تقرریوں کا دفاع کرتے وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ معاونین خصوصی کی تقرریاں اعزازی ہیں اور عزت دینے کی غرض سے کی جا رہی ہیں۔ ان تقرریوں سے قومی خزانے پر کوئی بوجھ نہیں پڑرہا ہے۔لیکن اتنے خراب معاشی حالات میں کابینہ کیوں بڑھائی جا رہی ہے؟ اس سوال کے جواب میں رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’کابینہ کا سائز اتنا ہی ہے جتنا تھا۔ یہ تو لوگوں کو عزت دینے والی بات ہے۔‘ تاہم رانا ثنا اللہ اس بات کا جواب نہیں دے سکے کہ معاونِ خصوصی کن شعبوں میں مقرر کیے ہیں۔

تجزیہ کار ہارون شریف نے بتایا کہ معاونِ خصوصی کی تقرری کا طریقہ کار غلط ہے۔ غلط بات یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ یہ واضح کیا جائے کہ یہ لوگ کیوں مقرر کیے گئے ہیں، ان کی تقرریوں کو ’اوپن اینڈڈ‘ رکھا جاتا ہے۔ یعنی آپ کوئی بھی مطلب اخذ کرلیں۔آئین کے مطابق دو طرح کے وزیر ہوتے ہیں، ایک وفاقی وزیر اور دوسرا وزیرِ مملکت۔ ایسے میں معاونِ خصوصی کا درجہ وزیر مملکت سے جوڑا جاتا ہے تاکہ ان کو وہ تمام تر مراعات مل سکیں جو وزیر مملکت کو ملتی ہیں۔ ازخود معاونِ خصوصی کو کچھ نہیں مل سکتا اس لیے ایسا کیا جاتا ہے۔جبکہ مسلم لیگ نون کے رہنما محسن نواز رانجھا نے بتایا کہ حکومت کو انتخابی مہم کے ذریعے آنے والے افراد چلاتے ہیں نہ کہ سیلیکٹڈ افراد۔ انھوں نے کہا کہ سب سے پہلے اس کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں رکھی گئی تھی جب 1975 میں ترمیم کرکے آئین کا حصہ بنایا گیا تھا اور پھر 1985 میں صدارتی حکم کے ذریعے اس پر باقاعدہ عمل کیا گیا۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ معاشی بحران میں ایسی تقرریاں کرنا کیوں ضروری ہیں تو انھوں نے کہا کہ اس وقت یہ تقرریاں بغیر کسی مراعات دیے کی گئی ہیں۔

البتہ ایک سرکاری اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نئے تعینات ہونے والے معاونین تنخواہ تو نہیں لیں گے لیکن انھیں وزرا کو ملنے والی تمام مراعات حاصل ہوں گیں جن میں سرکاری رہائش، سرکاری گاڑی، پیٹرول، علاج کی سہولت اور دوسرے الاؤنسز شامل ہیں۔ادھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایک معاونِ خصوصی پر کتنا سرکاری خرچہ آتا ہے؟ایک وزیر مملکت کی عام طور پر ماہانہ تنخواہ 180000 روپے ہوتی ہے۔ لیکن اس تنخواہ کے علاوہ چند چیزوں کا استحقاق ان وزرا کے پاس ہوتا ہے جن میں گاڑیاں ملنا، ماہانہ پیٹرول مختص کیا جانا، گھر کا کرایہ یا پھر گھر ملنا شامل ہوتا ہے۔کابینہ کے ایک رکن نے بتایا کہ ’اگر کسی معاونِ خصوصی کو وزیر مملکت کے درجے پر لایا جاتا ہے، جیسا کہ اس نوٹیفکیشن میں بھی واضح طور پر لکھا گیا ہے، تو ان کو وہ مراعات ملتی ہیں جو کسی وزیر مملکت کو ملتی ہیں۔ اس طرح سے ایک معاونِ خصوصی پر سرکاری خرچہ پانچ لاکھ سے 10 لاکھ ماہانہ کے قریب آتا ہے۔ جس میں گھر کا کرایہ، گاڑی، پٹرول اور دفتر شامل ہیں۔ یہ ماہانہ خرچہ اس سے تجاوز بھی کرسکتا ہے۔‘ جبکہ رکن نے بتایا کہ ’انتخابات کے نزدیک اس طرح کی تقرریاں کی جاتی ہیں تاکہ ووٹ بنک میں اضافہ کیا جاسکے۔‘

واضح رہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت کابینہ کی کل تعداد 86 ہے جن میں سے 40 معاونینِ خصوصی ہیں۔ جبکہ اس وقت 38 قائمہ کمیٹیاں ہیں جن میں سے 22 کی سربراہی پی ڈی ایم کے ارکان کررہے ہیں۔

Related Articles

Back to top button