ارب پتی جنرل مشرف پر نیب ہاتھ کیوں نہ ڈال پایا

سینئر سیاسی تجزیہ کار اور مسلم نون کے سینیٹر عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ سیاستدانوں کی چھوٹی چھوٹی پوٹلیوں  اور جیبوں تک کو ادھیڑ ڈالنے، چہروں پر کالک تھوپنے اور جیلوں میں ٹھونسنے والے اِس نظام قانون وانصاف کے کَل پُرزوں میں سے کسی میں ہمت نہیں تھی کہ وہ ارب پتی جنرل پرویز  مشرف کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھتا۔اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ انصار عباسی نے پچھلے دنوں پھرپرویز مشرف  کے کھاتوں کی تفصیل بیان کی ہے لیکن سیاستدانوں پر آدم خور کی طرح جھپٹنے والے خونخوار نیب نے کبھی ان کی  کوئی چھان بین نہ کی ،اب تک سامنے آنے والی تفصیل کے مطابق متحدہ عرب امارات کے آٹھ بینکوں میں مشرف  کے تقریباً تیس لاکھ ڈالر اور لگ بھگ پانچ کروڑ درہم پڑے ہیں۔ کوئی حساب لگالے کہ آج کے نرخ پر یہ رقم کتنے ارب روپے بنتی ہے۔ لندن میں نوازشریف سے منسوب ایون فیلڈ سے کہیں زیادہ مہنگے فلیٹ کے علاوہ پاکستان میں جائیدادوں کا وسیع سلسلہ، کسی ’’منی ٹریل‘‘ کا متقاضی نہیں۔  نظام قانون وانصاف کے کَل پُرزوں میں سے کسی کو یارا نہ تھا کہ وہ مشرف کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھتا۔

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ پرویز مشرف وہاں چلے گئے جہاں ہم سب کو جانا ہے۔ وہاں کی لُغت میں صرف دو الفاظ ہیں۔ جزا یا سزا۔ اور اِن دونوں کا انحصار بیاضِ عمل پر ہے۔ عہد ِمشرف کی خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لاحاصل ہے۔ اُس نے ایک ایسے گناہِ عظیم کا ارتکاب کیا، کوئی بھی کارنامہ جس کا کفّارہ نہیں بن سکتا۔ اُس نے اپنے اللہ سے باندھا گیا عہد توڑا۔ اپنے حلف سے غداری کی۔ اُس آئین کو پامال کیا جس کی پاسداری کی قسم کھائی تھی۔ دفاعِ وطن کے لئے دی گئی بندوق کے زور پر منتخب وزیراعظم کو معزول کرکے حوالہ زنداں کیا جس نے اسے اپنا آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے برطرف کیا تھا۔ اوّل و آخر یہی مشرف کا گناہِ کبیرہ تھا۔  آئین، پارلیمان، جمہوریت، سیاستدانوں، عدالتوں اور ججوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اور کامل نو برس تک ہوتا رہا، وہ سب اسی گناہِ کبیرہ کے ذیلی مکروہات تھے۔ مشرف کا عہد ایسے مکروہات، منکرات اور لغویات سے بھرا پڑا ہے۔ عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ  ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا پُرفریب جُبّہ عیاری پہنے، وہ اپنی ذات کے گرد جھُومر ڈالتا ، اپنے بُت کی پرستش کرتا رہا۔ وہ جب بھی کسی سرکاری دستاویزپر دستخط ثبت کرتا تو نیچے اُس کے سارے عہدے اہتمام سے لکھے جاتے۔ جنرل، چیف آف آرمی اسٹاف، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، چیف ایگزیکٹو، صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان۔ بے مہاراقتدار کی خواہشِ نے اُسے کبھی چین نہ لینے دیا۔ اُس کی حرص وہوس کا ظرف کبھی بھرنے نہ پایا۔ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے فریب کار لبادے تلے یہ سب کچھ کرتے ہوئے کبھی اُس کے ضمیر نے جھُرجھری لی نہ ماتھے پر عرقِ ندامت کا کوئی قطرہ جھلملایا، نہ رُسوائی اور جگ ہنسائی کے احساس نے کروٹ لی۔

عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ وردی اترجانے اور آبنوسی چھڑی جنرل اشفاق پرویز کیانی کے سپرد ہوجانے کے باوجود کوئی اُس کا بال تک بِیکا نہ کرسکا۔ خصوصی عدالت کو فردِ جرم عائد کرنے کے لئے جانے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑے۔ ضمانت منسوخ ہوئی تو ایکڑوں میں پھیلا اُس کا پرتعیش فارم ہائوس، اُس کی جیل قرار پایا۔ عدالت سے گریز ناگزیر ہوگیا تو سائرن بجاتی گاڑیوں کے جلو میں راولپنڈی کے آرمی ہسپتال پہنچ گیا جو کسی سول اتھارٹی کی دسترس میں نہ تھا۔ اپنی بیماریاں، اپنے ڈاکٹرز، اپنی لیبارٹریز، اپنے نسخے، اپنے ٹیسٹس، اپنی رپورٹیں، اپنے اعلامیے۔ نصف درجن مقدمے چلتے رہے۔ کسی عدالت کا کوئی پروانہ، اُس کے کسی قلعے کی کسی دیوار کے اُس طرف جھانک نہ سکا۔ یہ نوازشریف نامی شخص کا حوصلہ تھا کہ کرسی کے تقاضوں اور سودوزیاں کے کھاتوں سے بے نیاز ہوکر پہلی بار آئین کی شق 6 کو حرکت میں لایا۔ اپنے اور پرائے سمجھاتے رہے کہ زیاں کاری اور سودفراموشی کی اس راہِ پُرخطر پہ مت چلو۔ وہ ڈٹا رہا۔ یہاں تک کہ وزیراعظم کے گرد شکنجہ کس لیاگیا اور مشرف کی راہیں کشادہ کردی گئیں۔ اُسے موت کی سزا سنائی گئی تو وہ ملکی سرحدوں سے دُور اپنے عافیت کدوں تک پہنچ چکا تھا۔ سزائیں بھگتنے کیلئے وزیراعظم پیچھے رہ گیا۔ سو آج تک بھگت رہا ہے۔

آخر میں عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ  مشرف کے گناہِ عظیم کو آبِ زمزم کا غسل بھی نہیں دھوسکتا۔ اُس نے مارشل لا کے بعد اپنے پہلے خطاب کا آغاز ’’قومی ترانے‘‘ سے کیا۔ تقریباًساڑھے تیئس برس بعد اُس کا تابوت ’قومی پرچم‘ میں لپیٹ کر قبر میں اتاردیاگیا۔ قومی ترانے سے قومی پرچم تک کی یہ کہانی ہماری بے چہرگی کی بے ننگ وناموس داستان ہے۔ پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا نے اپنی عصمت دری کرنے والے شخص کے لئے دست دعا اٹھانے سے انکار کردیا۔ میں نے آیات قرآنی سے مزّین ہال میں آویزاں قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر کے لبوں پر دبی دبی سی مسکراہٹ دیکھی۔ یہ صبحِ کاذب ہی سہی لیکن آفتاب ِتازہ کی نوید بھی ہے۔ کوئی آمر کچھ بھی کرلے، اُس کا اولین گناہِ عظیم کبھی معاف نہیں کیا جاسکتا۔

Related Articles

Back to top button