افغان طالبان کے اختلافات پاکستان بھگتےگا

افغانستان میں طالبان کی نگران حکومت کے مابین اختلافات کی باتیں گردش کر رہی ہیں قندہاری طالبان اور حقانی گروپ آمنے سامنے آ چکے ہیں۔ دونوں گروپوں کے مابین خانہ جنگی کے پاکستان پر تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور پاکستان کو افغان طالبان ایک پناہ گاہ کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔افغان طالبان کےاختلافات کی بنیادی وجہ گذشتہ روز افغان طالبان کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کا ایک بیان ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت میں موجود ذمہ داروں کو ڈکٹیٹرشپ جیسا رویہ نہیں اپنانا چاہیے۔
بظاہر اسی بیان پر رد عمل دیتے ہوئے افغان طالبان کے سربراہ ملا ہبت اللہ اخونذادہ کے قریب سمجھے جانے والے قندہار کے گورنر مولی وفا درانی نے افغانستان میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’سربراہ کی جانب سے جو بھی حکم ہوتا ہے تو وہ سر آنکھوں پر قبول ہے اور ہمیں ماننے میں آسانی ہو یا سختی، ہمیں اس کو قبول کرنا ہوگا۔مبصرین سمجھتے ہیں کہ ان بیانات سے بظاہر یہی لگا رہا ہے کہ افغان طالبان کے مابین دو نظریاتی گروپس یعنی قندہاری طالبان جس کی سربراہی ملا ہبت اللہ اخونذادہ جبکہ دوسری جانب حقانی نیٹ ورک، جس کی سربراہی سراج الدین حقانی کر رہے ہیں کے مابین نظریاتی اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد ان تمام اختلافات کی تردید کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’طالبان کے مابین کوئی اختلافات نہیں اور جن بیانات کی باتیں ہورہی ہیں، تو اس کو محض مشورے سمجھنا چاہیے۔‘انہوں نے بتایا: ’ افغان طالبان میں ہر کوئی اپنے سربراہ کو مشورے دے سکتا ہے اور ہم نے تمام ذمہ داروں کو یہ تلقین کی ہے کہ اختلافات سے دور رہیں۔‘
یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ افغان طالبان کے مابین نظریاتی اختلافات کیا ہیں اور ابھی جو بیانات سامنے آئے ہیں، اس سے اگر اختلافات بڑھتے ہیں تو اس کا پاکستان پر کیا اثر پڑے گا؟سویڈن میں مقیم محقق عبدالسید سویڈن نے بتایا کہ افغان طالبان میں شروع سے اہم معاملات پر فیصلوں پر اعلیٰ قیادت کے مابین اختلافات موجود رہے ہیں اور اس کی امریکہ میں نائن الیون حملوں سے قبل افغان طالبان کے افغانستان میں اقتدار کے دوران کی مختلف مثالیں موجود ہیں۔عبدالسید نے بتایا: ’ان اختلافات پر تنظیم کے اس وقت کے سربراہ نے اس وقت مختلف اہم کمانڈروں کو معزول بھی کیا تھا اور گھروں میں بٹھایا تھا۔‘انہوں نے بتایا کہ اس وقت اہل تشیع کے مسئلے پر ملا عمر نے سب سے بااثر کمانڈر ملا داد اللہ کو معزول کیا تھا، تاہم ماضی میں ایسا کوئی وقت نہیں آیا ہے کہ یہ اختلافات شدت اختیار کر گئے ہوں۔
عبدالسید نے بتایا: ’حال ہی میں افغان طالبان کے سرکردہ رہنمائوں نے خواتین کی تعلیم کے مسئلے پر عالمی برادری کے دبائو اور مشکلات کی وجہ سے کافی ناراضگی کا اظہار کیا ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ یہ اختلافات کسی لڑائی کا سبب بن سکیں گے اور خصوصی طور پر اس سلسلے میں افغان طالبان کے نائب سربراہ اور عبوری وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کا نام لیا جارہا ہے مگر حقانی خاندان کی افغان جہادی تنظیموں میں باہمی جنگوں سے دامن بچا رکھنے کی ایک تاریخ ہے۔طالبان سمیت بیرونی حلقوں اور خواتین کی تعلیم کے حقوق پر سراج حقانی سے ایک فیصلہ کن کرداد کی توقع کی جارہی مگر یہ مستقبل قریب میں واضح ہوگا کہ وہ تنظیم کو انتشار سے بچانے کی کوشش کے ساتھ اس کا حل کیسے نکالتے ہیں۔عبدالسید سے پوچھا گیا کہ اس بظاہر اختلافات سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جب تک افغان طالبان کے مابین خانہ جنگی شروع نہیں ہوتی، تو میری نظر میں یہ افغان طالبان کا اندرونی مسئلہ ہے اور اس کا پاکستان پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔
افغان طالبان میں حقانی نیٹ ورک سخت لڑائی کرنے اور افغانستان میں ماضی میں اس تنظیم پر مختلف شدت پسندوں کارروائیوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے جبکہ دوسری جانب قندہاری طالبان ہیں جو سیاسی طور پر مضبوط سمجھے جاتے ہیں اور ابھی طالبان کے سربراہ قندہار میں بیٹھے اس تنظیم کی سرپرستی کر رہے ہیں۔بعض مبصرین کا خیال ہے کہ سراج الدین حقانی بظاہر ایک خاموش طبیعت کے مالک ہیں، اس قسم کا بیان ان کی جانب سے سامنے آنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اختلافات بعض معاملات پر شدت اختیار کرگیا ہے۔
مشتاق یوسفزئی پشاور میں مقیم صحافی ہیں اور افغان امور کے ماہر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں امریکہ کے خلاف اگر جنگ لڑی ہے تو اس میں بڑا حصہ حقانی کے گھرانے اور ان کے ساتھ جنگجوؤں کا تھا جبکہ قندہاری طالبان کا دھڑا جنگ میں اتنا متحرک نہیں تھا۔ یہ سراج الدین حقانی ہی ہیں جنہوں نے اس جنگ میں اپنےچار بھائی کھو دیے ہیں۔حتیٰ کہ مشتاق کے مطابق ابھی جو افغانستان میں حکومت پر قبضہ کیا ہے تو کابل پر قبضہ حقانی گروپ نے ہی کیا تھا اور وہ اب بھی افغان طالبان میں مضبوط جنگجوؤں سمجھتے جاتے ہیں۔مشتاق یوسفزئی نے بتایا کہ سراج الدین حقانی کا گھرانہ قومیت پر بھی بہت یقین رکھتا ہے اور جنگ کے دوران انہوں نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ ان کے مسائل حل کیے جائیں اور ان کو تعلیم سمیت دیگر زندگی کی ضروریات مہیا کی جائے گی لیکن اب وہ مسائل حل نہیں ہورہے ہیں۔جس وجہ سے اختلافات پیدا ہوئے ہیں۔
مشتاق یوسفزئی نے اس اختلافات کی پاکستان پر اثرات پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ اگر یہ اختلافات لڑائی تک پہنچ جاتے ہیں یا مسائل کا انبار لگ جاتا ہے تو پاکستان میں افغان طالبان کے رہنماؤں کے گھرانے موجود ہیں پاکستان میں ایک مرتبہ پھر افغان طالبان کی آمد شروع ہوجائے گی جس کا پاکستان پر اثر ضرور پڑے گا۔