چیئرمین نیب صرف سات ماہ بعد کیوں مستعفی ہو گئے؟

چیئرمین  نیب آفتاب سلطان نے صرف سات ماہ  کام کرنے کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے،اس طرح وہ اپنی مقررہ مدت ملازمت سے لگ بھگ ڈھائی سال قبل ہی سبکدوش ہو گئے ،ذرائع  کے مطابق عمران خان کے دور حکومت میں زیر عتاب رہنے والے پولیس سروس کے  آفتاب سلطان کو پی ڈی ایم حکومت میں بھی  بطور چیئرمین نیب غیر منصفانہ فیصلے کرنے پر مجبور کیا جارہا تھا تاہم آفتاب سلطان نے کسی بھی قسم کا دباؤ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اکیس فروری کو  وزیر اعظم شہباز شریف  سے ملاقات کرتے ہوئےانہیں اپنا استعفیٰ پیش کر دیا جو قبول کر لیا گیا ہے ۔آفتاب سلطان نے اپنے استعفے کی تصدیق کی، تاہم تاحال ان کے استعفے سے متعلق سرکاری سطح پر تاحال کوئی بیان جاری نہیں گیا۔ نجی نیوز چینل ’جیو‘ نے رپورٹ کیا کہ آفتاب سلطان نے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دیا کہ ’کچھ چیزیں کرنے کا کہا گیا جو میرے لیے ناقابل قبول تھیں‘۔

 

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے چیئرمین نیب آفتاب سلطان کا استعفیٰ منظور کر لیا، وزیر اعظم ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق آفتاب سلطان نے ’ذاتی وجوہات‘ کی بنا پر استعفیٰ پیش کیا تھا۔وزیرِ اعظم ہاؤس کے مطابق شہباز شریف نے آفتاب سلطان کی اپنے فرائض کی انجام دہی میں ایمانداری اور فرض شناسی کی تعریف کی اور چیئرمین نیب کے اسرار پر وزیر اعظم نے استعفیٰ منظور کر لیا۔

 

واضح رہے کہ سابق ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو آفتاب سلطان کو 21 جولائی 2022 کو 3 برس کے لیے جسٹس (ریٹائرڈ ) جاوید اقبال کی جگہ چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب) تعینات کیاگیا تھا تاہم انہوں نے صرف 215  دن کے بعد اپنا استعفیٰ پیش کردیا۔  ذرائع کےمطابق  موجودہ  چیئرمین نیب آفتاب سلطان پر اس وقت ادارے کے کچھ معاملات کے حوالے سے دبائو ڈالا جا رہا تھا  تاہم وہ کسی بھی طرح کا دبائو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھے ، انہوں نے کسی کے  خلاف غلط مقدمہ کرنے سے انکار کر دیا اور  ساتھ ہی کسی کے خلاف غیر منصفانہ انداز سے کوئی کرپشن کیس یا زیر التوا انکوائری ختم کرنے سے بھی انکار کیا  ۔ ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ آفتاب سلطان نیب کو سیاسی انتقام بنانے کا ویسا آلہ بنانے کے حق میں نہیں تھے  جیسا کہ ان کے پیش رو جاوید اقبال کے دور میں ہوا کرتا تھا، کسی کے اشاروں پر ناچنے کی بجائے انہوں نے  عہدہ چھوڑنے کو ترجیح دی ۔

 

یاد رہے کہ  آفتاب سلطان 22؍ گریڈ کے پولیس سروس کے افسر ہیں وہ  بے داغ کیریئر کے ساتھ  ڈی جی آئی بی کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے چکے ہیں اور انہوں نے ہی ادارے کو موثر سیکورٹی ایجنسی بنانے کیلئے اصلاحات متعارف کرائی تھیں۔اپنے دور میں، انٹیلی جنس بیورو کو نہ صرف جدید انٹیلی جنس ٹیکنالوجی کا حامل ادارہ بنایا گیا بلکہ ادارے نے کامیابی کے ساتھ کئی دہشت گرد نیٹ ورکس کو نشانہ بنا کر دہشت گردی کی لعنت کا بھی مقابلہ کیا۔آفتاب سلطان نیب کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے والے اور سیاست دانوں، بیوروکریٹس کاروباری افراد یا دیگر کو نشانہ بنانے والے ادارے کی بجائے احتساب کا موثر ادارہ بنانا چاہتے تھے ۔

 

نیب کے ایک اندرونی ذریعے کا کہنا تھا کہ جب سے آفتاب سلطان نے چیئرمین کا عہدہ سنبھالا تھا ، ہر انکوائری اور شکایت کو اس کے میرٹ کے مطابق جانچا اور پرکھا جا رہا تھا ۔ صرف ایسے کیسز پر ہی کارروائی کی جاتی تھی  جن میں مقدمہ چلانے کیلئے ٹھوس شواہد موجود تھے ۔آفتاب سلطان کی قیادت میں نیب میں بلیک میلنگ بند ہوگئی تھی ۔آفتاب سلطان نے نیب میں اچھی ساکھ کے حامل افسران کو مقرر کیا  تاکہ احتساب کے عمل کا معیار بہتر بنایا جا سکے۔ تاہم، ادارے میں اصلاحات لانے کیلئے جس طرح کی مدد اور حمایت انہیں حکومت سے درکار ہے اس کا فقدان پایا جاتا تھا ۔ پرویز مشرف کے دور میں آفتاب سلطان کو ڈی آئی جی سرگودھا لگایا گیا تھا اور اس وقت جنرل مشرف نے ریفرنڈم کا انعقاد کیا تھا۔آفتاب سلطان سرگودھا ڈویژن سے کافی سپورٹ حاصل نہ کر پائے اور اسلئے انہیں عدم تعاون کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ بعد میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے انہیں ڈی جی آئی بی لگایا لیکن دوسال بعد ہٹا دیا گیا۔ ایک وجہ یہ تھی کہ انہوں نے خفیہ فنڈز کو سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کرنے سے انکار کر دیا۔

 

انہوں نے ایوانِ صدر کے ساتھ انٹیلی جنس رپورٹس یہ کہتے ہوئے شیئر کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ یہ معلومات صرف صدر وزیراعظم کو ہی فراہم کر سکتے ہیں۔دوسری وجہ یہ تھی کہ انہوں نے یوسف رضا گیلانی کو مشورہ دیا کہ وہ سوئس حکام کو صدر زرداری کیخلاف خط لکھنے کے معاملے میں درمیانہ راستہ اختیار کریں۔2013کے الیکشن سے قبل انہیں آئی جی پنجاب لگایا گیا۔ بعد میں انہیں پھر ڈی جی آئی بی لگایا گیا اور اس وقت ملک کے وزیراعظم نواز شریف تھے۔اپنے چار سالہ دور میں آفتاب سلطان نے آئی بی کو انسداد دہشت گردی کا سرکردہ ادارہ بنایا اور کراچی میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائیوں کے ساتھ کئی نمایاں مقدمات حل کیے۔تاہم، عمران خان نے آفتاب سلطان پر تنقید کی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے 2014ء میں پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے دھرنوں کے پیچھے ایک اور سرکردہ انٹیلی جنس ایجنسی کے ملوث ہونے کی معلومات وزیراعظم نواز شریف کو پیش کیں۔عمران خان نے آفتاب سلطان پر الزام عائد کیا کہ صحافیوں اور اینکرز کو نون لیگ کی طرف سے فنڈز فراہم کیے جا رہے ہیں اور پی ٹی آئی کیخلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہ وہ الزام تھا جس کی آفتاب سلطان نے تردید کی تھی۔

جب عمران خان وزیراعظم بنے تو انہوں نے اپنے ڈی جی آئی بی کے ذریعے اس الزام کی تحقیقات کرائیں لیکن یہ الزامات غلط ثابت ہوئے۔عمران خان حکومت نے انہیں نواز شریف دور میں سارک کے اجلاس کے دوران لگژری گاڑیوں کی امپورٹ کے کیس میں نیب کے ذریعے پھنسانے کی کوشش کی۔ اس کیس میں آفتاب سلطان تین مرتبہ پیش ہوئے اور اس کے بعد انہیں کوئی نوٹس نہیں بھیجا گیا۔آفتاب سلطان کے کیریئر کی سب سے اہم بات پانچ ہزار صفحات کی ایک رپورٹ ہے جو انہوں نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر بحیثیت ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس، مشہور زمانہ بنک آف پنجاب کے مقدمے کے حوالے سے مرتب کی تھی۔

 

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے آفتاب سلطان کو بطور تفتیشی افسر مقرر کیا تھا۔یاد رہے کہ آفتاب سلطان کی بطور چیئر مین نیب تقرری کے  نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ آفتاب سلطان کو قومی اسمبلی میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت کے بعد چیئرمین نیب مقرر کیا گیا۔نوٹیفکیشن میں بتایا گیا تھا کہ آفتاب سلطان کو بنا توسیع کے 3 برس کے لیے نیب کا چیئرمین مقرر کردیا گیا ہے اور اس کا نفاذ ان کے چارج سنبھالتے ہی ہوجائے گا، چیئرمین نیب کو سپریم کورٹ کے ایک جج کے برابر مراعات حاصل ہوں گی۔

 

ان کے تقرر کا اعلان کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناللہ نے کہا تھا کہ سابق ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو آفتاب سلطان کو چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب) تعینات کردیا گیا، امید ہے کہ آفتاب سلطان اپنی صلاحیتوں اور تجربات سے نیب جیسے ادارے کو غیرجانبدار اور صحیح معنوں میں احتساب کرنے والا ادارہ بنانے میں کامیاب ہوں گے۔  تاہم آفتاب سلطان نے اپنی ملازمت کی مقررہ مدت سے لگ بھگ ڈھائی سال پہلے ہی استعفیٰ دے دیا ،جس کے بعد سیاسی حلقے امید کر رہے ہیں پاکستان تحریک انصاف اس استعفی ٰکو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے یہ کہتے ہوۓ ضرور استعمال کرے گی کہ پی ڈی ایم حکومت نیب کو  تحریک انصاف کے رہنمائوں کے خلاف کرپشن کے ناجائز کیس بنانے کے لیے مجبور کر رہی تھی جس بنا پر ادارے کے سربراہ نے استعفیٰ دےدیاہے۔

کیا دہشت گردی بھی الیکشن کے التواء کا باعث بنےگی؟

Related Articles

Back to top button