بے ایمان جج بھی سیاستدانوں کی طرح نااہل ہونے چاہئیں

سینئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے اس تجویز سے اتفاق کیا ہے کہ آرٹیکل 62-63 کا اطلاق پارلیمنٹ کے اراکین سے کہیں زیادہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں پر ہونا چاہئے کیوںکہ ججوں کا کردار، اُن کی ایمانداری، اُن کی سچائی اور انصاف پسندی ایسی ہونی چاہئے کہ کوئی اُن پر انگلی نہ اٹھا سکے لیکن ہماری عدلیہ اور ججز سے جڑے تنازعات ہی ختم نہیں ہوتے، اُن پر طرح طرح کے الزامات لگتے ہیں۔ اُن کے فیصلوں سے انصاف کی بجائے ناانصافی اور طاقت ور کی حمایت کی بو آتی ہے، اُنہوں نے بار بارآئین کو کچلنے والوں کا ساتھ دیا، آرٹیکل 62-63کو اُن کی روح کے مطابق سب پر یکساں لاگو کرنے کی بجائے اس کو اپنی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر چند ایک سیاستدانوں کے حق یا اُن کے خلاف استعمال کیا۔
اپنے کالم میں انصار عباسی کہتے ہیں کہ آئین کو پڑھیں تو پتا چلتا ہے کہ پارلیمنٹ کا ممبر بننے کیلئے بڑی سخت شرائط عائد کی گئی ہیں، ان شرائط کا مقصد یہ ہے کہ ہم میں سے بہترین لوگ ہی ایم این اے، ایم پی اے اور سینیٹر بن کر ملک و قوم کے مستقبل کا فیصلہ کریں، کیوںکہ انہی ممبران پارلیمنٹ سے ہمارے وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور وزیر منتخب ہوتے ہیں تو آئین آرٹیکل 62-63 کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ہمارا حکمراں طبقہ، ہمارے پالیسی میکرز ایماندار ہوں، سچے ہوں، بہترین کردار کے مالک ہوں، باعمل مسلمان ہوں، بڑے گناہوں اور برائیوں کی وجہ سے نہ جانے جاتے ہوں، اسلام کے بارے میں کافی علم رکھتے ہوں۔
افسوس کہ آئین کی ان شقوں پر عمل نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ہر قسم کے لوگ پارلیمنٹ میں آجاتے ہیں اور ہم پر حکمراں بن کر مسلط ہو جاتے ہیں۔ ان آئینی شقوں کی خلاف ورزی پر کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ اُن تمام افراد اور اداروں کے خلاف آرٹیکل 6 لگایا جائے جو ان آئینی شقوں پر عملدرآمد کرنے میں دلچسپی نہیں لیتے۔اس سلسلے میں سب سے اہم ذمہ داری الیکشن کمیشن اور عدلیہ کی ہے جن کو آئین کی ان شقوں پر مکمل عملدرآمد یقینی بنانا چاہئے۔ اگر ان شقوں پر عمل ہو تو چاہے کوئی بھی سیاسی جماعت ہو، کوئی بھی اقتدار میں آجائے ہمارے ممبران پارلیمنٹ اور حکمراں صرف اور صرف اچھے کردار کے مالک، سچے ، ایماندار اور باعمل مسلمان ہی ہو سکتے ہیں۔ افسوس کہ ایسا ہوتا نہیں جس کی وجہ جیسا کہ میں نے اوپر بات کی، آئین پر عملدرآمد کا نہ ہونا ہے اور اسی وجہ سے ہمارا یہ حال ہے۔
انصار عباسی کا کہنا ہے کہ چند دن قبل نوے دن کے اندر الیکشن کرانے کے سوموٹو کیس کو سنتے ہوے چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ آئین پاکستان آج عدالت کے دروازہ پر دستک دے رہا ہے۔ اُن کے اس بیان پر سیاستدانوں اور میڈیا کی طرف سے ایک شدید ردعمل سامنے آیا لیکن میں یہ سوچ رہا تھا کہ اگر نوے دن کے اندر الیکشن کرانے کی آئینی شق کی خلاف ورزی کے خطرے کو محسوس کرکے چیف جسٹس صاحب کو عدالت کے دروازے پر آئین کی دستک سنائی دی ہے تو اسی آئین کی اسلامی شقوں بشمول آرٹیکل 62-63 کی کھلم کھلا خلاف ورزی پر یہ دستک محسوس کیوں نہیں ہو رہی۔
آئین کے آرٹیکل 31 کے مطابق، ریاست اور اس کے تمام اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان میں رہنے والے مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ماحول فراہم کریں لیکن ہمارا ماحول اور ہمارے فیصلے مغرب کی تقلید میں زیادہ نظر آرہے ہیں اور کوئی بولتا بھی نہیں۔ آئین میں کتنی ہی شقیں ایسی ہیں جن پر کوئی عمل نہیں ہورہا بلکہ اُن کی خلاف ورزی ہو رہی ہے لیکن صرف چند شقوں سے متعلق ہی ہمارے حکمراں اور سیاستداں آئین اور آئین کی پاسداری کی بات کرتے ہیں جبکہ عدالتوں کے دروازے پر دستک بھی اپنی من پسند آئینی شقوں سے متعلق ہی ہوتی ہے۔
انصار عباسی کہتے ہیں کہ ایک دو روز قبل ایک سینئر صحافی نے سوشل میڈیا پر ایک بہت اچھی بات کی کہ آرٹیکل 62-63 کا اطلاق پارلیمنٹ کے اراکین سے کہیں زیادہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں پر ہونا چاہئے یقیناً یہ تجویز بہت اہم ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی کیلئے کوئی شرائط موجود نہیں، نہ ہی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی کیلئے کوئی مقابلے کا امتحان ہوتا ہے۔ ان ججوں کی تعیناتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ جہاں تک ایمانداری، سچائی، بہترین کردار کا تعلق ہے تو یہ شرائط تو واقعی ہر جج کیلئے لازم ہونی چاہئے، اس میں کوئی شک نہیں اگر ہمارے جج اور عدلیہ سچے، ایماندار، انصاف پسند ہوں تو دوسرے تمام ادارےبھی صحیح کام کریں گے، سب کو انصاف ملے گا۔ اگر عدلیہ اس ملک کی قسمت کو بدلنا چاہتی ہے تو اُسے خود ہی اپنے لئے ایک اعلیٰ ترین معیار قائم کرنا چاہئے اور ججوں کی تعیناتی کے نظام کی بنیاد ایسا میرٹ ہوکہ جج کی ایمانداری، سچائی اور انصاف پسندی پر کوئی انگلی نہ اُٹھا سکے۔