فوجی اسٹیبلشمنٹ عمران خان پر ہاتھ کیوں نہیں ڈال سکتی؟

معروف لکھاری ایاز امیر نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان پاکستانی تاریخ کے پہلے سیاستدان ہیں جو کھلے عام فوجی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لے رہے ہیں لیکن دوسرا فریق انکے خلاف کارروائی کی شدید خواہش کے باوجود اس پوزیشن میں نہیں کہ ان پر ہاتھ ڈال سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو والا زمانہ اور تھا۔ تب اسٹیبلشمنٹ بہت طاقتور تھی اور سوشل میڈیا کی شکل میں آج کے ذرائع ابلاغ موجود نہیں تھے۔ بھٹو پر قتل کا مقدمہ قائم کیا گیا اور پھر انہیں مجرم قرار دے کر پھانسی دے دی گئی۔ لیکن آج کے حالات مختلف ہیں۔ عمران خان کو سیاسی طور پر ختم کرنے کی خواہش تو بہت ہے لیکن حالات ایسے ہیں کہ اس خواہش کا پورا ہونا اتنا آسان نہیں۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں ایاز امیر کہتے ہیں کہ سرکار کو اب بھی سمجھ نہیں آرہی کہ ملک کس حال کو پہنچ چکا ہے اور کس تباہی کی طرف جارہا ہے؟ مسئلہ اتنا پیچیدہ نہیں بس سمجھنے کی بات ہے ۔ اب تو کسی کو شک نہیں رہنا چاہیے کہ اپریل میں حکومت کی تبدیلی سے ملک غیر مستحکم ہو چکا ہے۔ یوں غیر یقینی کے بادل چھا گئے اور معاشی صورتحال ابتری کی طرف جانے لگی ۔ حکومت تبدہل کرنے والوں سے یہ صورتحال سنبھالی نہ جاسکی۔ لہٰذا قصور کس کا بنتا ہے؟ اب تو پرلے درجے کے بیوقوفوں کو بھی سمجھ آ چکی ہوگی کہ حکومت بدل کر غلطی کی گئی تھی۔ جہاں غلطی کا ادراک ہو جائےوہاں تقاضا یہی ہوتا ہے کہ غلطی کو درست کر لیا جائے۔لیکن ایک تو غلطی کرنے والے اسے ماننے کو تیار نہیں اور دوسرا کسی حل کی طرف جانے سے قاصر ہیں کیونکہ دماغ میں سوچ یہی ہے کہ ایسا کیا تو ان کی ناک کٹ جائے گی۔ یہ لوگ اپنی ضد پر قائم ہیں۔
ایاز امیر کہتے ہیں کہ اس صورت حال میں عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک مصیبت بن چکا ہے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو ہرگز یہ امید نہیں تھی کہ وہ اتنی زیادہ مزاحمت کرے گا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ عمران پیچھے ہٹنے سے انکاری ہے اور فوجی اسٹیبلشمنٹ اسے کرش کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ لہٰذا اب بات گولیوں تک پہنچ چکی ہے۔ یہ تو عمران خان کی قسمت ہے کہ گولیوں کی بوچھاڑ سے بچ گیا نہیں تو اس کے ساتھ وہی ہونے جا رہا تھا جو بینظیر بھٹو کے ساتھ ہوا تھا۔
سپریم کورٹ نے سواتی کےججز ریسٹ ہائوس میں قیام کی تردید کر دی
ایاز امیر نے کہا کہ عمران ڈرنے والا نہیں اور پیچھے ہٹنے کی بجائے مسلسل آگے بڑھے گا اور صحت یاب ہوتے ہی اپنا لانگ مارچ دوبارہ شروع کر دے گا۔ گولیاں لگنے کے بعد اس کی مہم میں مزید جان پڑجائے گی۔ جب تک نئے انتخابات کا اعلان نہیں ہوتا، عمران نے پیچھے نہیں ہٹنا۔ اب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ عمران کا فوری الیکشن کا مطالبہ مانتی ہے تو انتخابات میں سب کا دھڑن تختہ ہو جائے گا اور خان دوبارہ برسر اقتدار آ جائے گا۔ اسے کہتے ہیں قسمت کا کھیل۔ اقتدار میں رہتے ہوئےعمران کی عوامی مقبولیت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ مہنگائی کی وجہ سے انکی حکومت کو برا بھلا کہا جاتا تھا۔ یہ بھی عام تاثر تھا کہ حکمرانی کے لحاظ سے پی ٹی آئی حکومت اتنی کامیاب نہیں رہی لیکن خدا کا کرنا تھا کہ منصوبہ سازوں نے تبدیلی حکومت کا منصوبہ بنا یا وجہ کچھ خاص بھی بس وسوسے تھے کہ عمران پتا نہیں کس کسے نیا فوجی سربراہ بنانا چاہتا ہے۔ یہ وسوسہ اگلوں کو ڈھیر کر گیا اور انہوں نے حکومت گرانے کا پلان بنایا جو اب الٹا پڑ چکا ہے۔
ایاز امیر کہتے ہیں کہ تاریخ پاکستان میں جو کچھ عمران اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں کہہ رہا ہے ایسا پہلے بھی نہ ہوا تھا۔اقتدار سے معزولی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑے ہوئے تھے لیکن ان کا جو حشر ہوا ہم سب اس سے واقف ہیں۔ اقتدار سے نکلنے کے بعد نواز شریف نے بھی کچھ آواز یں نکالیں لیکن زیادہ دیر تک نہیں۔ مزاحمت کے راستے پر زیادہ دیر کار بند نہ رہ سکے اور پھر عافیت اسی میں بھی کہ جب راستہ ملا تولندن کوچ کر گئے۔ عمران کی صورت میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ ایک شخص کھلم کھلا ٹکر لے رہا ہے اور کھڑا ہے۔ بھائی لوگوں کواس پر ہاتھ ڈالنے کی آرزو تو ہوگی لیکن ڈال نہیں پا رہے کیونکہ بھٹو صاحب والا زمانہ اور تھا۔ ایسے میں اب اسٹیبلشمنٹ عجیب مخمصے کا شکار ہے اور اسے موجودہ مشکل ترین صورتحال سے نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔