عمران اسلم: علم کا خزانہ، ملک کا اثاثہ

تحریر: نسیم حیدر

بشکریہ:روزنامہ جنگ

جنگ اور جیو گروپ کے صدر عمران اسلم کون تھے اور ان کے انتقال سے پاکستان کس شخصیت سے محروم ہوا ہے؟ یہ وہ بات ہے جسے شاید ہی کوئی ایک شخص پوری طرح اجاگر کرسکے لیکن آج اس بات کی شاید اس لیے ضرورت بڑھ گئی ہے کیونکہ اگر ہم یہ نہ جان پائے تو پھر عمران اسلم صاحب کے جانے سے پیدا خلا کبھی پُر نہیں کیا جاسکے گا۔

عموماً ہم جب کسی شخصیت کا ذکر کرتے ہیں تو اس کی تعریفوں میں زمین اور آسمان کے قلابے ملادیتے ہیں، مخالفت پر اترتے ہیں تو اس حد تک گر جاتے ہیں کہ اس کے اچھے کاموں کو بھی تنگ نظری کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اس شخصیت سے کچھ سیکھ نہیں پاتے اور ملک کو آگے بڑھانے میں ناکام رہتے ہیں۔

جہاں تک عمران اسلم کا تعلق ہے، اس میں دو رائے نہیں کہ وہ حقیقی معنوں میں اپنی ذات میں ایک انجمن اور ایک ادارہ تھے۔ کیسے؟ کسی حد تک یہی بات واضح کرنے کے لیے میں نے یہ مضمون لکھنے کی ہمت کی ہے۔

جیونیوز لانچ ہونے سے چند ماہ پہلے میں نے اس ادارے سے وابستہ ہونے کے لیے درخواست دی تو ٹیسٹ کے بعد جن تین شخصیات نے میرا انٹرویو کیا ان میں سے ایک عمران اسلم صاحب تھے، دیگر دو اہم شخصیات کا نام اس لیے نہیں لے رہا کیونکہ جیونیوز کے سینیئر ترین افراد کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ خودنمائی نہیں چاہتے۔

عمران اسلم صاحب کو نئی نسل شاید اس لیے بہت اچھی طرح جان بھی نہیں سکتی کیونکہ ان کی رہنمائی میں ایک کے بعد دوسرا چینل لانچ تو کیا گیا، ایک کے بعد دوسرے صحافی کو پالش کرکے چوٹی کا رپورٹر اور ایسا میزبان تو بنایا گیا کہ آج ملک میں ان کی طوطی بولتی ہے مگر عمران اسلم صاحب نے کبھی ان پلیٹ فارمز کو اپنی شخصیت کیلئے استعمال نہیں کیا۔

خودنمائی سے گریز اس حد تک رہا ہے کہ جیونیوز کی پہلی سالگرہ پر خصوصی رپورٹ بنانے کا کہا گیا تو میں نے چیدہ چیدہ افراد کے شاٹس اس میں شامل کیے، رپورٹ آن ائیر ہوتے ہی مجھے ان تین میں سے ایک شخصیت کا ٹیلی فون آیا، بولے تم نے میرا شاٹ کیوں استعمال کیا؟ میں نے واضح کرنے کی کوشش کی کہ آپ چینل کے بانیوں میں سے ایک ہیں تو یہ رپورٹ آپ کے بغیر نامکمل رہتی، وہ بولے یہ نیوز چینل ہے، اس پر نیوز آنی چاہیے، آج میں غیرضروری طورپر چینل پر آیا تو کل کو خود نمائی کرنیوالے کسی جونیئر کو روکنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گا۔ یہ وہ سوچ تھی جس نے جیونیوز کو ملک کا مقبول ترین چینل بنایا اور خبر کی اہمیت اجاگر کی۔

بات میرے انٹرویو کی ہورہی تھی،ایک ہی روز  پہلے اسرائیل میں دھماکا ہوا تھا، کئی امریکیوں سمیت اسرائیلی شہری مارے گئے تھے، اس دور میں یاسرعرفات فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ تھے۔اسرائیل کی جانب سے بڑی جوابی کارروائی متوقع تھی، عمران اسلم صاحب نے واقعے کے بارے میں کچھ پوچھا پھر کہنے لگے آپ کے نزدیک یاسرعرفات کے بعد کون سربراہ ہوگا؟

اس ایک سوال نے یہ واضح کردیا کہ دانشمندی یہ ہے کہ آپ مستقبل پر کیسی نظر رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی کئی اہم نام لے کر ان کے بارے میں میرے خیالات پوچھے۔ عمران اسلم صاحب کے چند جملوں ہی سے اندازہ ہوگیا کہ عالمی امور پر ان کی دسترس کس قدر غیر معمولی تھی اور وہ چھوٹے واقعات میں مستقبل کی جھلک کیسے دیکھتے تھے۔

لانچ کے بعد جیو نیوز  آواری ٹاورز سے جنگ بلڈنگ میں منتقل ہوا تو میں ایک روز کافی پینے پانچویں فلور کی کینیٹین گیا، اتفاق سے عمران اسلم صاحب ادارے کے چند دیگر سینیئر افراد سے بات کررہے تھے، میں نے کرسی جان کر ایسی جگہ سنبھالی کہ عمران اسلم صاحب کو سننے کا موقع مل سکے۔

پاکستان کی فلم انڈسٹری سے متعلق بات ہورہی تھی، ایک ایسی فیلڈ جس میں شاید ہی ان کا کوئی ثانی ہو، عمران اسلم صاحب نے قیام پاکستان سے دوہزار بیس تک کا احوال ایسے بتایا جیسے ہر چیز ان کی انگلیوں پرہو، وہ ہر فلم کے بننے سے سینما اسکرین پر جلوہ گر رہنے تک اس کا حصہ رہے ہوں۔ جس سال فلم بنی تھی وہ سن کا نام لیتے پھر فلم کا نام بتاتے، کرداروں کا ذکر کرتے، کہانی کا پس منظر بتاتے اور یہ واضح کرتے کہ یہ فلم بنائی کیوں گئی تھی، کس کردار کو کیوں ڈھالا گیا تھا اور معاشرے پر اس کے اثرات کیا ہوئے۔ وہ جو سینئیر سامنے بیٹھے ، ان کے چہرے بتارہے تھے کہ آخر ان جیسے چیمپئن بھی عمران اسلم صاحب کے ماتحت کام کرنے میں کیوں فخر محسوس کررہے ہیں۔

وہ ایک ایسے شخص تھے جو عالمی امور اور ملک کی صورتحال ہی نہیں، کھیلوں، بزنس، انٹرٹینمنٹ ہر شعبے پر گہری دسترس رکھتے تھے۔ اس سب کے باوجو غرور انہیں چھو کر نہیں گزرا تھا۔ وہ انتہا درجے کے سادگی پسند شخص تھے۔ گہرے رنگ کی عموماً سیاہ پینٹ اور سفید شرٹ پہنتے، بردباری ایسی کہ جونیئرز ان کی موجودگی میں پریشان نہ ہوں بلکہ حوصلہ ملے۔ ایک ایسی علمی شخصیت تھے کہ صرف انہیں دیکھ کر آپ بہت کچھ سیکھ جائیں۔

جیونیوز کی لانچنگ کے وقت زیادہ تر صحافی ٹی وی جرنلزم سے واقف نہیں تھے۔غیرملکی جید صحافیوں سے ٹریننگ دلوائی گئی مگر سینیئر ہوں یا جونیئر سب ایسی غلطیاں کرتے تھے کہ وارننگ لیٹرز دیے جاتے تو شاید آدھی ٹیم فارغ کردی جاتی مگر عمران اسلم اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ غلطیوں سے سیکھنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ دفتر میں شاید ہی کوئی ہو جس نے 20 برس میں کبھی عمران اسلم صاحب کو غصے میں دیکھا ہو۔ انہوں نے کبھی اپنے عہدے کا رعب نہیں جھاڑا، جونیئرز سے بھی اونچی آواز میں بات نہیں کی۔ وہ شخصیت کو مجروح کرنے کے قائل نہیں تھے، کونپل کو تناور درخت بنتا دیکھنا چاہتے تھے۔

جب جیونیوز لانچ ہوا تو مشرف صاحب کی آمریت تھی، ملک کے ایک اور  نامور صحافی ظفرعباس اس وقت بی بی سی سے وابستہ تھے۔ وہ عمران اسلم صاحب کا انٹرویو کرنے جیو نیوز کے کراچی دفترآئے، اتفاق یہ کہ پورا دفتر جس سیٹ کے پس منظر سے واضح ہوتا تھا وہ میرے بالکل ساتھ تھی، عمران اسلم صاحب وہاں بیٹھے تھے اس طرح مجھے وہ پورا انٹرویو آن دا ریکارڈ اور آف دا ریکارڈ سننے کا موقع ملا جس کا کچھ حصہ بی بی سی پر نشر ہوا، ظفرعباس نے بنیادی مگر سب سے اہم سوال پوچھا کہ اس وقت میڈیا کس قدر آزاد ہے کہ آپ نے اتنا بڑا چینل لانچ کیا ہے؟

عمران اسلم صاحب مسکرائے اور یہ کہہ کر کوزے میں دریا بند کردیا کہ

“There is freedom of expression but there is no freedom after that.”

یعنی ملک میں آزادی اظہار کی تو اجازت ہےمگر ایسا کرنےکےبعد آزادی نہیں، اس ایک جملے میں پاکستان کی تاریخ چھپی ہے۔

پچھلے برس میں نے جیونیوز کے انگریزی سیکشن کیلئے ایک آرٹیکل لکھا جس کا عنوان تھاکہ میڈیا سخت سوالات کیوں نہیں پوچھتا؟ میں عمران اسلم سے اجازت لینا چاہتاتھا کہ کیا میں ان کا 20برس پہلے کہا گیا یہ جملہ اپنے مضمون میں شامل کرلوں، جیسے ہی فون ملایا اور کہا کہ میڈیا کی آزادی پر آپ کی بات تو آج کی صورتحال پر بھی صادق آتی ہے، وہ مسکرائے، یادداشت کا یہ عالم تھا کہ 20 برس پہلے کہا گیا جملہ ہو بہو وہی دہرایا، میں نے نام کےساتھ ان کا جملہ لکھنے پر اصرار کیا تو بالٓاخر اجازت دے دی۔

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ عمران اسلم صاحب علم کا خزانہ تھے، ملک کا حقیقی اثاثہ ،ایک ایسی شخصیت آج ہم میں نہیں، جو لوگ ان سے حقیقی معنوں میں واقف ہیں، وہ عمر بھر اپنی زندگی میں ایک ایسے دانشور کی کمی محسوس کریں گے جس کی موجودگی ایک سائبان کی طرح تھی۔ صرف یہی احساس کیا جاتا رہا تو شاید عمران اسلم کے انتقال سے پیدا خلا کبھی پُرنہ ہو۔

یہاں مجھے روزنامہ جنگ کے دوعشروں تک مدیر سید محمد تقی یاد آئے جو دنیا کے نامور فلسفیوں میں سے ایک گزرے ہیں۔ مانک جی اسٹریٹ پر واقع ان کے گھر میں میری پہلی ملاقات تھی، بات جینیٹکس یعنی جینیات پرآگئی، بائیالوجی کا طالبعلم ہونے کی وجہ سے مجھے اس شعبے میں بہت دلچسپی تھی، تقی صاحب نے جس گہرائی سے اس مضمون پر بات کی، میں حیران تھا کہ یہ شخص فلسفی ہے یا ماہر جینیات، کہنے لگے میاں میں نے زندگی میں صرف دو کام کیےہیں، پڑھا ہے یا لکھا ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔

آپ کو سیدمحمد تقی بننا ہو، عمران اسلم یا اپنے فن کی ماہر ترین کوئی بھی اور شخصیت ۔ آپ کو اس شعبے کیلئے خود کو فنا کرنا پڑتا ہے، بچھڑے کا ذکر اسی وقت معنی رکھتا ہے جب ہم اس سے کچھ سیکھیں، ان سے بہتر نہیں تو کم سے کم ان جیسا تو بنیں۔

Related Articles

Back to top button