کیا حکومت سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کر سکتی ہے؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنائے جانے کے متنازعہ فیصلے کے بعد اب یہ سوال زیر بحث ہے کہ کیا حکومت سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے مطالبے کی روشنی میں سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کر سکتی ہے؟

سپریم کورٹ کے 27 جولائی کے فیصلے سے قبل اور بعد میں حکومتی اتحاد کے کئی سیاست دانوں کی جانب سے عدالتی اختیارات محدود کرنے کے مطالبے کے بعد ملک بھر کی وکلا تنظیمیں بھی اس میں شامل ہو گئی ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، تمام صوبوں کی ہائی کورٹ بارز، پاکستان بار کونسل، صوبائی بار کونسلز اور جوڈیشل کمیشن کے رکن و نامزد ارکان نے اپنی ایک مشترکہ قرارداد میں مطالبہ کیا ہے کہ آئین کی شق 175 اے اور شق 209 میں ترامیم کی جائیں تاکہ ججز کی تقرری اور برطرفی کا فورم ایک ہو سکے اور اس میں ججز، بار، انتظامیہ اور پارلیمان سب کی مساوی نمائندگی ہو۔

وکلا نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ آئین کی شق 175 (2) اور 191 میں ترمیم کر کے بینچز کی تشکیل، مقدمات کی تاریخ معین کرنے اور سو موٹو لینے میں چیف جسٹس کو حاصل مکمل اختیار ختم کر کے عدالت کے پانچ سینئر ترین ججز کو دیا جائے۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کر کے یا ایکٹ کے ذریعے سپریم کورٹ کے معاملات کو ریگولرائز کر سکتی ہے جس میں بینچز کی تشکیل اور انتظامی معاملات بھی شامل ہیں۔

لانگ مارچ کے بعد دھرنا نہ دینے پرعمران کی آئیں، بائیں، شائیں

وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کی طرف سے یہ بیانیہ پیش کیا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم کرنے یا ان کے امور کی نگرانی کرنے کے حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے بھی وفاقی حکومت کو اعلیٰ عدالتوں میں ججز تقرریوں اور ترقیوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کرنے کی تجویز دی جا رہی ہے۔ پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 176 سے آرٹیکل 191 تک سپریم کورٹ سے متعلق ہیں اور آئین کا آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ عدالتی اُمور نمٹانے کے لیے طریقہ کار بنا سکتی ہے۔

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مقننہ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اس قانون میں ترمیم کر کے سپریم کورٹ کو اس بات کی پابند کر سکتی ہے کہ وہ انتظامی معاملات اور مختلف مقدمات کی سماعت کے لیے بینچز کی تشکیل آئین کے مطابق کرے۔ انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت کی بھی ضرورت نہیں ہے بلکہ پارلیمنٹ کی سادہ اکثریت سے بھی اس کو قانون کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تعیناتی سے متعلق پاکستان کے چیف جسٹس یا متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس کسی بھی وکیل کو ہائی کورٹ کا جج مقرر کرنے یا پھر کسی ہائی کورٹ کے جج کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کرنے کے لیے نام تجویز کرنے کا اختیار ہے لیکن یہ اختیار بھی قانون سازی کے ذریعے واپس لیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ سب سے زیادہ سپریم ہے کیونکہ آئین اسی پارلیمنٹ نے بنایا ہے اور تمام ادارے اسی پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے آئین کے ہی تابع ہیں۔

لیکن حال ہی میں عمران خان سے اپنے معاملات ٹھیک کر لینے والے آئینی ماہر حامد خان کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ میں ہونے والی عدالتی کارروائی پر چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھ سکتی البتہ اس کے لیے اسی طرح کا ایکٹ بنا سکتی ہے جس طرح کا ایکٹ انڈیا میں موجود ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان میں سپریم کورٹ کے رولز بنائے گئے ہیں۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ ایکٹ کے تحت اہم مقدمات کی سماعت کے لیے بینچز کی تشکیل کیسے ہو گی اور کون سے جج کس نوعیت کے کیسز سُنیں گے، جیسے معاملات طے ہو جائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ اس ایکٹ کے تحت بینچز کی تشکیل کا اختیار صرف چیف جسٹس کے پاس نہیں ہونا چاہیے بلکہ سپریم کورٹ کے تین سینئر ججز کی رائے کو بھی اس میں شامل ہونا چاہیے۔

واضح رہے کہ حامد خان نے گذشتہ روز ایک بیان میں کہا تھا کہ آئینی معاملات سے متعلق اگر کوئی درخواست آئے اور اس کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ کے سینئر ججز کو بینچ میں شامل ہونا چاہیے نا کہ ایسے ججز کو شامل کیا جائے جس کے بارے میں اس تاثر کو تقویت ملے کہ یہ ’ہم خیال‘ ججز کا بینچ ہے۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان میثاق جمہوریت طے پا رہا تھا تو اس وقت پاکستان بار کونسل کی طرف سے یہ تجویز دی گئی تھی کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کے لیے 19 افراد پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیا جس میں سات جج صاحبان، چھ وکلا اور چھ پارلیمنٹرین شامل ہوں لیکن اس وقت دونوں جماعتوں کی قیادت نے اس تجویز کو قبول نہیں کیا تھا۔

جب اٹھارہویں ترمیم پارلیمنٹ میں پیش کی جا رہی تھی تو تب ارکان پارلیمنٹ کا یہ مطالبہ تھا کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججز تعینات کرنے سے متعلق انھیں بھی نام تجویز کرنے کی اجازت دی جائے تاہم اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ایک فیصلہ دیا تھا کہ ججز کی قابلیت کے بارے میں جتنی معلومات اعلیٰ عدلیہ کے پاس ہوتی ہیں وہ ارکانِ پارلیمان کے پاس نہیں ہوتیں۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ چونکہ اس فیصلے کو کسی نے چیلنج نہیں کیا تھا اس لیے یہ فیصلہ حتمی شکل اختیار کر چکا ہے اور اب ارکانِ پارلیمان اس پر عمل درآمد کے پابند ہیں۔

واضح رہے کہ اس وقت سپریم جوڈیشل کمیشن کے نو ارکان ہیں جن میں چھ جج صاحبان جبکہ اٹارنی جنرل، وزیر قانون اور پاکستان بار کونسل کا ایک نمائندہ اس کمیشن میں شامل ہے۔

Related Articles

Back to top button