چیف جسٹس عدالتی سربراہ ہے تو سیاسی جماعت کا صدر کیوں نہیں؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے اس موقف کو رد کرتے ہوئے کہ سیاسی جماعت کے سربراہ سے زیادہ با اختیار اور طاقتور پارلیمانی پارٹی کا ہیڈ کا ہوتا ہے اور ووٹ دینے کا فیصلہ بھی اسی کا مانا جائے گا، آئینی ماہرین نے یاد دلایا ہے کہ اگست 2021 میں جسٹس بندیال صحافیوں کی ہراسانی پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا بنایا ہوا ایک بینچ توڑ کر سوموٹو نوٹس لینے کے اختیار کو صرف چیف جسٹس کا استحقاق قرار دے چکے ہیں۔ یعنی انہوں نے اپنے ایک ساتھی جج کا نوٹس لینے کا اختیار تسلیم نہ کرتے ہوئے یہ قرار دیا تھا کہ یہ حق صرف چیف جسٹس کا ہے۔ ایسے میں سوال کیا جا رہا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی جج چیف جسٹس سے طاقتور اور با اختیار نہیں ہو سکتا تو پھر کسی سیاسی جماعت کا صوبائی پارلیمانی ہیڈ اپنی جماعت کے مرکزی صدر سے زیادہ با اختیار کیسے ہو سکتا ہے؟

سپریم کورٹ نے خود پرویز الہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنا دیا

یاد رہے کہ اگست 2010 میں سینئر صحافیوں عامر میر عمران شفقت کی ایف آئی اے کے ہاتھوں گرفتاری کا سوموٹو نوٹس لیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل، انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس اور سیکریٹری داخلہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا تھا۔ عامر میر اور عمران شفقت پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے وزیراعظم عمران خان، انکی اہلیہ بشری بی بی اور فوج اور عدلیہ کی کردار کشی کی ہے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے اس معاملے مین آئین کی دفعہ 184(3) کے تحت عوامی مفاد میں سوو موٹو نوٹس لیا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر جسٹس عمر عطا بندیال نے 5 رکنی بینچ تشکیل دے کر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ازخود نوٹس معطل کر دیا تھا۔

اس کے بعد بجائے کہ بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے صحافیوں کی ہراسانی کا معاملہ سنا جاتا، عمر عطا بندیال نے یہ طے کرنے کے لیے عدالتی کاروائی شروع کردی کے سوو موٹو نوٹس لینے کا اختیار کیا چیف جسٹس کے علاوہ کسی اور جج کا بھی ہو سکتا ہے۔ اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کو ایک خط ارسال کیا جس میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کے کیس میں لارجر بینچ تشکیل دینے کے فیصلے پر سوالات اٹھائے گئے اور نئے بینچ کی تشکیل کو آئین سے تجاوز قرار دیا گیا۔ عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لینے کے اختیار کی وضاحت کے لیے جو 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا اس میں بھی انکے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس قاضی محمد امین اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔ نئے بینچ نے 20 اگست کو جسٹس قاضی فائز عیسی کی جانب سے جاری کردہ حکم معطل کردیا۔
چنانچہ اس پیش رفت پر چیف جسٹس کو 24 اگست کو ارسال کردہ ایک خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین نے سپریم کورٹ کے مختلف دائرہ کار کی تفصیل فراہم کی ہے جو قانون کے ذریعے بھی دیے جاسکتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز کا کہنا تھا کہ آئین میں ایسا کوئی دائرہ اختیار نہیں دیا گیا جو ایک بینچ کو دوسرے بینچ کے کام کی نگرانی کی اجازت دے یا اس کے احکامات کو معطل کردے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئین نے ‘نگرانی کے دائرہ اختیار’ کی اجازت نہیں دی اور اس کی وجہ سے 5 رکنی بینچ کے پاس اس کیس کو سننے کا اختیار نہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت جاری رکھی تو یہ آئین سے تجاوز ہوگا، نتیجتاً لارجر بینچ کی جانب سے دیا گیا کوئی بھی حکم آئینی طور پر کالعدم ہوگا اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔

تاہم جسٹس عمر عطا بندیال نے اس اعتراض کا جواب دینے کی بجائے کیس کی سماعت جاری رکھی اور پھر یہ فیصلہ جاری کردیا کہ سوو موٹو نوٹس لینے کا اختیار صرف اور صرف چیف جسٹس کا ہوتا ہے جو کہ سپریم کورٹ کا سربراہ ہوتا ہے اور باقی ججز چیف جسٹس کے نائب ہوتے ہیں جن کا ایسا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ 14 صفحات پرمشتمل عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کسی جج یا بینچ کو از خود نوٹس لینے کا اختیار نہیں، بینچ چیف جسٹس کو نوٹس لینے کی صرف سفارش کر سکتا ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ سوموٹو نوٹسز پر سماعت چیف جسٹس کے تشکیل کردہ بینچ ہی کرینگے، اور نہ تو کوئی بینچ ازخود کسی کو طلب کر سکتا ہے اور نہ ہی رپورٹ منگوا سکتا ہے جیسا کہ عامر میر اور عمران شفقت کے کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیا، فیصلے میں کہا گیا کہ ایسے کسی بھی کام کے لیے چیف جسٹس کی منظوری لازمی ہوگی۔

ایسے میں آئینی اور قانونی حلقوں کی جانب سے سوال کیا جا رہا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی جج چیف جسٹس سے طاقتور اور با اختیار نہیں ہو سکتا تو پھر کسی سیاسی جماعت کا صوبائی پارلیمانی ہیڈ اپنی جماعت کے مرکزی صدر سے زیادہ با اختیار کیسے ہو سکتا ہے جیسا کہ اب چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور ان کے ساتھی ججوں نے قرار دیا ہے۔

Related Articles

Back to top button