ہماری سول اور پولیس بیوروکریسی سیاسی جماعتوں کی آلہ کار

 

پاکستانی سول اور پولیس بیوروکریسی میں سیاسی جماعتوں کے آلہ کار بننے کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے

جسکے نتیجے میں یہ دونوں ریاستی ادارے مسلسل زوال پذیر ہیں۔ اسلام آباد کے معروف تحقیقاتی صحافی شکیل انجم اپنی تازہ تحریر میں بتاتے ہیں کہ پولیس سروس آف پاکستان یعنی پی۔ایس۔پی اور پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس یعنی پی۔اے۔ایس کے افسروں میں سیاسی جماعتوں کا آلہٴ کار بننے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔جس کے نتیجے میں دونوں ریاستی اداروں کے افسروں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں واضح کمی ہو رہی ہے۔انکا کہنا ہے کہ پولیس اور انتظامی اداروں کے آفیسرز سیاسی جماعتوں سے منسلک ہیں اور اپنی اپنی پسندیدہ سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں کے طور پر کام کرتے ہیں۔ کسی گروہ کا تعلق مسلم لیگ سے ہے، کوئی تحریک انصاف کا ہے، کسی نے پیپلز پارٹی کی غلامی قبول کر رکھی اور کوئی کسی اور سیاسی جماعت سے دوستی کا دم بھرتا ہے۔ لیکن ان کا مقصد ملک و قوم کی خدمت نہیں بلکہ ان سیاسی پارٹیوں سے جن کے وہ پیروکار ہیں، وقت آنے پر فائدہ اٹھانا ہے۔ یہ لوگ اپنی پارٹیوں کے اقتدار میں آنے کا مدتوں انتظار کرتے ہیں اور جب انکی پارٹی اقتدار میں آجاتی ہے تو ریاست کے سپوت سیاست دانوں کی چاکری میں ان کا ہر ناجائز کام عبادت سمجھ کرتے ہیں۔لیکن سیاسی وابستگیاں رکھنے اور سیاسی جماعتوں یا فرح خان کے ذریعے عزت اور ترقی پانے والے آفیسر اپنا کیرئر تباہ کر لیتے ہیں۔

شکیل انجم کے مطابق پی۔ایس۔پی اور پی۔اے۔ایس آفیسرز میں سیاسی تقسیم کا باقائدہ آغاز نواز شریف کے دور میں تب ہوا جب وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔۔۔اور مرکز میں پیپلز پارٹی تھی۔ ان اداروں کے افسروں کی سیاسی گروہ بندیوں کے نتیجے میں پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے شعبے انحطاط کا شکار ہوئے اور اس گراوٹ میں اضافہ ہی ہوا، کمی نہیں ہوئی۔ ان دونوں اداروں کی تنزلی پر اس لئے بھی تشویش ہے کہ یہ ریاستی ادارے ہیں اور ان کی تنزلی ریاست کی تذلیل کا باعث ہےاور سیاسی لباس میں یہ ریاستی ادارے عوام کی نگاہ میں معیوب اور غیر اخلاقی تصور کئے جاتے ہیں۔ اب حالات اس قدر دگرگوں ہیں کہ سیاسی چہیتے آفیسرز کھلے عام اپنی سیاسی وابستگیوں کا اعلان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی اپنی گروہ بندیوں، معاشی اور اخلاقی ابتری اور غیرپیشہ ورانہ رویوں نے ریاستی اداروں کی ساکھ اور تنظیم کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔

شکیل انجم کا کہنا ہے کہ پولیس کے سربراہوں میں یہ منفی رحجان دکھائی دے رہا ہے کہ جب بھی آئی۔جی کی سطح پرکوئی تبدیلی رونما ہوتی ہے، اکثر پولیس سربراہ اپنی مرضی اور مزاج کی ٹیم لانے کو ترجیح دیتا ہے۔ حال ہی میں ایک اہم شہر کے پولیس سربراہ نے منصب سنبھالتے ہی سب ڈویژنل پولیس آفیسر سے ڈی۔آئی۔جی تک تمام آفیسرز کو نکال باہر کیا اور تمام سیٹوں پر میرٹ کی پروا کئے بغیر ’’اپنوں‘‘ کو بٹھا دیا۔ ان تمام ’’اپنوں‘‘ نے غیر پیشہ ورانہ ’’سربراہی‘‘ سے شہر کا سکون برباد کردیا اور رخصت ہوگئے۔ پولیس سربراہوں کے اس قسم کے اقدامات کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ ایسا پولیس کمانڈر اس قدر نااہل ہوتا ہے کہ اپنا نظام چلانے کے لئے اپنے مزاج کے افسروں کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہو سکتا کہ پولیس کمانڈر کے کمانڈ کی بنیاد کرپشن پر استوار ہو اور وہ کرپشن کا دھندہ ’’اپنوں‘‘ کے ذریعے کرتا ہو۔۔ دونوں صورتوں میں کمانڈر کا یہ رویہ غیر پیشہ ورانہ ہے۔

بقول شکیل انجم، ایک وقت تھا جب قوم کے نوجوان حصول تعلیم کے بعد قانون کی بالادستی اور ملک سے جرائم کے خاتمے کا مقصد اور عزم لے کر پولیس اور ایڈمنسٹریٹو سروس میں شمولیت اختیار کرتے تھے اور اب یہ وقت یہ ہے کہ اکثر نوجوان پولیس افسروں کا مشن جرم اور مجرموں کے خلاف جہاد کرنا نہیں بلکہ خود شریک جرم ہو کر دنیاوی مفادات حاصل کرنا ہے۔ ہر لحاظ سے اعلیٰ اوصاف کے مالک اور اپنے کردار اور کارکردگی سے پولیس کے ذریعے محکمے کی عزت اور وقار میں اضافہ کرنے والے ریٹائرڈ پولیس افسر ذوالفقار چیمہ نے گزشتہ دنوں نیشنل پولیس اکیڈمی میں زیر تربیت اسسٹنٹ سپرنٹنڈنس آف پولیس سے خطاب کے دوران پولیس کے شعبہ کی تنزلی اور بے وقعت ہونے کے اسباب بیان کرتے ہوئے پولیس فورس میں شمولیت اختیار کرنے والے نئے پولیس افسروں کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان پولیس افسروں کی ترجیحات تبدیل ہو گئی ہیں۔انکا کہنا تھا کہ پہلے نوجوان ملک کی خدمت کے جذبے کے تحت پولیس فورس میں شامل ہوتے تھے لیکن آج کے آفیسرز کے مقاصد میں کرپشن کے ذریعے اپنی طاقت میں اضافہ کرکے معاشی اور معاشرتی قوت میں اضافہ کرنا شامل ہو گیا ہے جو ملک اور ادارے کی تنزلی کی وجہ بن رہا ہے۔

سابق فوجیوں کی سوسائٹی فوجی قیادت کے خلاف کیوں ہو گئی؟

ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف 25 فیصدپاکستانی نوجوان آفیسرز ایمانداری، میرٹ، محنت اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے ذریعے اپنے کیریئر کو آگے بڑھانے پر یقین رکھتے ہیں جبکہ 75 فیصد نوجوان آفیسرز منفی مقاصد کے تحت پولیس فورس میں شمولیت اختیار کرتے ہیں اور ملک اور ادارے کی تذلیل کا باعث بنتے ہیں۔ ان تشویشناک حالات میں اگر ریاست کے حاکم ریاستی اداروں کو، خاص طور پر پی۔ایس۔پی اور پی۔اے۔ایس ’’کو مکمل تباہی سے بچانا چاہتے ہیں تو ان کے انتخاب کوسخت کر دیں اور ان کے انتخابی عمل میں ان کے نفسیاتی تجزیے بھی شامل کردیں تاکہ ان کے منفی اور مثبت رویوں کا قبل از وقت علم ہو جائے۔

Related Articles

Back to top button