عمران کو گڈو جیسا رونقی سیاستدان کیوں کہا جاتا ہے؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار حماد غزنوی نے کہا ہے کہ یہ بات طے ہے کہ عمران خان سے زیادہ رونقی سربراہِ مملکت اسلامی دنیا نے آج تک نہیں دیکھا اور آئندہ بھی نہیں دیکھے گی، وہ کہتے ہیں کہ بچپن کے کچھ کردار آپ کو کبھی نہیں بھولتے، ہمارے محلے میں ایک لڑکی تھی گُڈو، سب اسے گُڈو رونقی کہتے تھے، شادی بیاہ کے موقع پر ہر تقریب کی جان، خود ڈھولکی بجاتی، خود ہی ٹِیپ کے سروں میں گاتی اور پھر کچھ دیر میں کمر پر دوپٹہ کس کر خود ہی محوِ رقص ہو جاتی، دلہن کی رُخصتی کے موقع پر گُڈو کی بھاں بھاں سب سے بلند ہوتی۔ اگر محلے میں کوئی وفات ہوجاتی تو سیاہ پوش گُڈو الم کی تصویر بن جاتی، ’بین کرتی عورتیں رونقیں ہیں موت کی‘‘والی صورت پیدا ہو جاتی، سب سے زیادہ گُٹھلیاں پڑھتی، سوگواروں کا باورچی خانہ بھی سنبھالتی اور باقی وقت لواحقین کا ہاتھ تھام کر پر نم آنکھوں سے مرحوم کی نودریافتہ صفات کا چرچا کرتی۔ بلا شبہ، نوحۂ غم ہو یا نغمۂ شادی، محلے کی رونق گُڈو پر موقوف تھی۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں حماد غزنوی کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں عمران خان کا ہو بہو وہی مرتبہ ہے جو کہ ہمارے محلے میں گُڈو رونقی کو حاصل تھا، اگر عمران نہ ہوتے تو ہمارا سیاسی منظر نامہ کس قدر پھیکا اور بے رنگ ہوتا، یہ سوچ کرہی طبیعت بے کیف ہو جاتی ہے۔گُڈو کی طرح ہر موقع کی مناسبت سے ان کے اندر سے ایک مختلف آدمی نکل آتا ہے۔حماد غزنوی کہتے ہیں کہ ہمارے تمام سربراہانِ مملکت حج اور عمرے پر تشریف لے جاتے رہے ہیں مگر کبھی خان صاحب جیسی رونق نہیں لگا سکے، خان صاحب حجاز مقدس میں ننگے پائوں پھر رہے ہیں، خان صاحب اور بشریٰ بی بی کی حرم سے تصاویر آتی ہے تو عقب میں خاور مانیکا بھی کھڑے نظر آ رہے ہیں، ہمارے کتنے ہی سیاست دانوں کو سعودی بادشاہوں نے تحائف دیے ہیں لیکن جو رونق خان صاحب کے تحائف نے لگائی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ حتیٰ کہ شہباز شریف اور مریم اورنگ زیب بھی عمرہ پر جائیں تو مسجدِ نبوی کے صحن میں ’رونق‘ کا اہتمام خان صاحب کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے، ذرا تصور کیجئے کہ اگر خان صاحب کے کھلاڑی حرم میں گالم گلوچ نہ کرتے تو آج وہ عمرہ کسے یاد ہوتا، آپ کو شہباز صاحب کا کوئی اور ’بے رونق‘ عمرہ یاد ہے؟

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ گُڈو رونقی کی طرح خان صاحب شادی اور مرگ کو یادگار بنانے کے فن میں مہارت رکھتے ہیں۔ خان صاحب نے تین شادیاں کیں اور آغاز میں تینوں ہی چھپائیں۔ موصوف نے نوے کی دہائی میں انگریز کے ذہنی غلاموں کے خلاف ’برائون صاحب‘ کے عنوان سے جنگ اخبار میں کالم لکھے اور پاکستانیت کا پرچار کیا۔ لیکن اسی دوران خان صاحب نے ارب پتی برطانوی یہودی بزنس میں سر جیمز گولڈ سمتھ کی بیٹی جمائما گولڈ سمتھ کو اپنے عقد میں لے لیا۔ اسکے بعد ’نیا پاکستان‘ بناتے کی جنگ لڑتے ہوئے انہوں نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں ایک کنٹینر میں بسیرا کیا اور ریحام خان سے دوسری شادی کی بنیاد رکھی، لیکن تیسری بار تو خان صاحب نے کمال ہی کر دیا، پہلے ایک خاتون کو اپنا مرشد بنایا، پھر اسکی طلاق کرائی، پھر دورانِ عدت ان سے خفیہ نکاح دے مارا۔ یوں موصوف نے ایک بار پھر گڈو کی طرح رنگ بکھیرے اور رونق لگا دی۔

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ کچھ اسی طرح جنازوں کو بھی خان صاحب اپنی عدم شرکت سے یادگار بنا دیتے ہیں، ریحام خان اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ ہم ایک خلیجی ملک میں عمران کے دوست کے گھر مقیم تھے، اس دوران اچانک ہمارے میزبان کی ناگہانی موت ہو گئی، خان صاحب نے فوراً اپنا سامان باندھا اور مرحوم کے مرنے کی بیڈ سنس آف ٹائمنگ کو کوستے ہوئے بغلی دروازے سے نکل لئے، کون سا دوست، کون سی میت، کون سا جنازہ۔ اسے کہتے ہیں کسی موقعے کو یادگار بنا دینا، ورنہ ہمیں کیا معلوم کسی صحرائی ریاست میں کون جیتا ہے اور کون مر گیا۔

یونانی دیو مالا میں خدائوں نے مائیڈیس نامی بادشاہ کو ایک معجزہ عطاکیا تھا، وہ جس شے کو ہاتھ لگاتا وہ سونے کی ہو جاتی، کیا انسان اور کیا جمادات۔ اسی طرح عمران خان کو بھی یہ ہنر عطا ہوا ہے کہ وہ جس فضا میں سانس لیں وہ بارونق ہو جاتی ہے۔ آج تک پاکستان میں  31 وزرائے اعظم نے حلف اٹھایا ہے، لیکن کیا آپ کو کوئی ایک تقریبِ حلف برداری بھی یاد ہے؟ ایک معمول کی یکسانیت گزیدہ کارروائی کسے یاد رہتی ہے، لیکن خان صاحب کی حلف برداری کا منظر ناقابلِ فراموش ٹھہرا، صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری امتِ مسلمہ اُس منظر کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے، ایسا نہیں تھا کہ خان صاحب اُلٹے کھڑے ہو گئے یا دہکتے کوئلوں پر چل کر حلف گاہ تک پہنچے، موصوف نے صرف اور صرف ’خاتم النبین‘ کے تلفظ سے ایسی ’رونق‘ لگائی کہ بھلائے نہیں بھولتی۔

اپنی آمد کی طرح خان صاحب نے اپنی رخصتی کے منظر کو بھی بے رنگ نہیں رہنے دیا، عدم اعتماد کی تحریک تو کئی وزرائے اعظم کے خلاف آئی ہے لیکن کوئی بھی خان صاحب کی طرح وکٹیں اکھاڑ کر نہیں بھاگا، خان صاحب نے اُن سات دنوں میں پانچ مرتبہ آئین توڑ کر وہ ’رونق‘ لگائی کہ الامان و الحفیظ۔ کبھی سائفر، کبھی میر جعفر اور میر صادق، کبھی غدار، کبھی نیوٹرل، کبھی جانور، کبھی کچھ، کبھی کچھ۔ آپ یہ دیکھیں کہ آڈیوز تو کئی لوگوں کی لیک ہوئی ہیں مگر خان صاحب جیسی رونق کوئی مائی کا لعل نہیں لگا سکا، خیر یہ بات تو سمجھ آتی ہے کیوں کہ عمران خان زندگی بھر مغرب میں ایک مسلمہ’ رونقی‘ سمجھے گئے ہیں مگر دوسری طرف خان صاحب اسلامی ٹچ کے بھی ماہر ہیں، بوقتِ ضرورت انکے اندر سے ایک مبلغ اسلام بھی نکل آتا ہے جو ہم جیسے گناہ گاروں کو’’ امر بالمعروف ‘‘کی تلقین کرتا ہے۔حماد غزنوی کہتے ہیں کہ بلاشبہ، یہ بات طے ہے کہ عمران خان سے زیادہ رونقی سربراہِ مملکت اسلامی دنیا نے آج تک نہیں دیکھا اور آئندہ بھی نہیں دیکھے گی، انشااللہ۔

Related Articles

Back to top button