عدالت نے عمران کی شادی کے خلاف درخواست خارج کر دی

وفاقی شرعی عدالت نے وزیر اعظم عمران خان کی بشریٰ بی بی سے تیسری شادی کے خلاف قانونی حکم جاری کرنے کی درخواست خارج کردی ہے۔ درخواست گزار نے سوال کیا تھا کہ کیا قرآن کریم بیوی کو اپنے شوہر سے نکاح ختم کرنے کا اختیار دیتا ہے، کیا مسلم بیوی جو بچوں کی ماں ہے دوسری شادی کے لیے اپنے شوہر سے خلع مانگ سکتی ہے، کیا قرآن پاک اس عورت کو اس طرح چھوڑے گئے بچوں کی ماں تسلیم کرتا ہے، اور کیا خلع کے بعد بشری بی بی کا عمران سے نکاح آئینی دفعات کے مطابق ہے۔
فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی، جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین ایم شیخ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے وفاقی شرعی عدالت رولز 1981 کے قانون کے مطابق دائر نہیں کیا گیا۔
درخواست گزار نے وفاقی شرعی عدالت کے سامنے موقف اختیار کیا تھا کہ اپنے شوہر سے طلاق لینے کے بعد عدت کے دوران عورت کسی غیر محرم کے ساتھ نہیں رہ سکتی اور جو تعلق عورت اور مرد کے درمیان ہوگا اس پر ان کو سنگسار کیا جائے گا. اس درخواست میں کہا گیا تھا کہ طلاق کے بعد جب تک عدت نہ گذر جائے تب تک عورت کا نکاح کرنا جائز نہیں، خواہ طلاق دینے سے پہلے شوہر اور بیوی میں طویل عرصے سے ملاقات کی نوبت نہ آئی ہو، یہ بھی کہا گیا کہ شرعی قوانین کی روشنی میں عدت میں کیا گیا نکاح شرعاً باطل ہوتا ہے.
تاہم وفاقی شرعی عدالت نے اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے نوٹ کیا کہ پٹیشنز نے اپنے دعوے کی تائید کے لیے سورہ طحہٰ کی صرف ایک آیت کا حوالہ دیا، عدالت نے مشاہدہ کیا کہ اس آیت کا خلع کی بنیاد پر نکاح کو ختم کرنے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، جسے کہ درخواست میں بنیادی مسئلہ ہونا چاہیے تھا۔ پٹیشنز نے وفاقی شرعی عدالت سے دس سوالوں کے جواب بھی مانگے تھے۔ اس سوالنامے کے بارے میں بینچ کی رائے تھی کہ یہ رائج طریقہ کار کے خلاف ہیں، جبکہ درخواست میں اکثر سوالات غیر متعلقہ تھے اور ان کا فیڈرل شریعت کورٹ کے دائرہ کار سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
وفاقی شرعی عدالت نے درخواست کو خارج کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کچھ سوالات لغو، تضحیک آمیز اور بالکل غیر متعلقہ تھے، جبکہ نکاح سے متعلق دو سوالات نہ صرف انتہائی مبہم، بلکہ پیچیدہ اور ناقابل فہم تھے، انہیں تو درخواست کا حصہ ہی نہیں ہونا چاہیے تھا۔
بینچ کی رائے تھی کہ اس معاملے پر کوئی بھی ریلیف حاصل کرنے کے لیے درخواست گزار نکاح نامے میں شامل متعلقہ دفعات کو چیلنج کرتے ہوئے علیحدہ درخواست دائر کر سکتا ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ پٹیشنز کو کسی ایسے قانون کی نشاندہی کرنا ہوگی جو نافذ کی گئی ہو یا جس کا اطلاق کیا گیا ہو اور جو قرآن پاک کے احکامات یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہو۔
الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا کو نا اہل قرار دے دیا
خلع سے متعلق فیملی کورٹس ایکٹ کے سیکشن 10 سے متعلق بینچ کا کہنا تھا کہ اس معاملے کا فیصلہ عدالت پہلے ہی کر چکی ہے اور اب یہ ایک بند باب ہے، تاہم عدالت نے یہ تجویز دی کہ درخواست گزار سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ کے سامنے زیر التوا اپیل میں فریق بن سکتا ہے۔
یاد رہے کہ درخواست گزار نے وفاقی شریعت عدالت کے سامنے اپنی پٹیشن میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ بشریٰ بی بی نے عمران خان سے شادی اپنی طلاق کے بعد عدت ختم ہونے سے پہلے ہی کر لی جو کہ شرعی طور پر غلط ہے۔ درخواست میں بتایا گیا کہ بشری بی بی کی طلاق 14 نومبر 2017 کو ہوئی جس کی تصدیق پنکی پیرنی کی دوست فرح جبین نے بھی کی اور بتایا کہ عدت 14 فروری 2018 کو مکمل ہو گئی.
دوسری جانب عمران کا بشریٰ بی بی سے نکاح یکم جنوری 2018 کو ہوا جب بشری بی بی عدت میں تھیں۔ بشریٰ بی بی کی عدت کو چھپانے کے لیے 18 فروری 2018 کو تصاویر جاری کی گئیں۔ اس جھوٹ کو چھپانے کے لیے عمران کو نکاح خواں کو خاموش رکھنے کا چیلنج درپیش تھا اسی لیے انہوں نے مفتی سعید سے اپیل کی کہ وہ میڈیا پر کوئی بیان نہ دیں۔
اس حوالے سے عمران کے قریبی دوست نعیم الحق اور مفتی سعید کی ایک آڈیو بھی لیک ہو چکی ہے جس میں مفتی سعید اس بات کا اقرار کر رہے ہیں کہ عدت کے معاملے میں مجھے اندھیرے میں رکھا گیا. پٹیشنر نے موقف اختیار کیا تھا کہ عمران کا بشری بی بی سے نکاح انکی عدت کے دوران ہوا جو شرعی طور پر حرام اور ناجائز ہے. تاہم وفاقی شری عدالت نے یہ درخواست مسترد کر دی ہے۔