دبئی میں بھی بلوچ قوم پرستوں کی گمشدگی شروع

پاکستان میں بلوچ قوم پرستوں کی گمشدگی کا سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے لیکن اب یہ یہ سلسلہ پھیلتا ہوا دبئی تک پہنچ گیا ہے۔ دبئی میں ایک بلوچ قوم پرست عبدالحفیظ زہری کی گمشدگی کی اطلاع ہے تاہم اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اسے کس نے اور کیوں اغوا کیا؟

پاکستان میں بلوچ قوم پرستوں کی جبری گمشدگی کا سلسلہ اب دیگر ممالک سے ہوتا ہوا متحدہ عرب امارات پہنچ گیا ہے۔ اپنے بھائی اور والد کی المناک موت کے بعد زندگی بچانے کی خاطر دبئی منتقل ہونے والے ایک بلوچ قوم پرست عبدالحفیظ زہری کی 27 جنوری سے گمشدگی کی اطلاع نے اس کے بیوی بچوں اور بہن کو شدید اذیت میں مبتلا کررکھا ہے۔

ضلع خضدار سے تعلق رکھنے والی فاطمہ بی بی کا دعویٰ ہے کہ انکے چھوٹے بھائی کی تشدد زدہ لاش ملنے اور والد کے قتل کے بعد اپنی جان بچانے کے لیے انکا بڑا بھائی عبدالحفیظ دبئی چلا گیا تھا لیکن اُسے وہاں سے بھی لاپتہ کر دیا گیا ہے۔  بلوچستان کے مشیر برائے داخلہ و قبائلی اُمور میر ضیاءاللہ لانگو نے اس معاملے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے اور متحدہ عرب امارات حکومت بھی خاموش ہے۔

عبدالحفیظ بلوچستان کے ضلع خضدار کے رہائشی تھے۔ خضدار میں ان کے والد محمد رمضان کا تعمیراتی سامان کا کاروبار تھا۔ اس کے علاوہ وہ زمینداری بھی کرتے تھے۔ بڑے بیٹے کی حیثیت سے عبد الحفیظ والد کے ساتھ کاروبار کو دیکھتے رہے اور جو زمینداری کی بھی دیکھ بھال کیا کرتے تھے۔

عبد الحفیظ کی بہن فاطمہ بی بی کے بقول پہلے ان کے چھوٹے بھائی عبدالمجید زہری کو 2011 میں جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور 24 اکتوبر کو اس کی تشدد زدہ لاش ملی۔ دو فروری 2012 کو ان کے والد محمد رمضان کو بھی فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔ معاملہ یہاں پر نہیں رکا بلکہ خضدار میں ان کے گھر پر دستی بم سے حملہ کیا گیا جبکہ مسلح افراد نے گھر میں ان کی گاڑیوں اور دیگر مشینری کو بھی جلا دیا۔

بقول فاطمہ بی بی ان حالات میں ان کے بڑے بھائی عبدالحفیظ کی زندگی کو شدید خطرات لاحق تھے جس کے باعث ان کو بلوچستان میں اپنا گھر بار مجبوراً چھوڑ کر دبئی منتقل ہونا پڑا۔ فاطمہ نے بتایا کہ عبدالحفیظ 2012 میں خود دبئی منتقل ہوئے اور اس کے بعد اُنھوں نے 2014 میں اپنے بچوں کو بھی بلا لیا۔

علی امین گنڈا پور کے بھائی نااہل قرار

اُنھوں نے سنہ 2014 میں بلڈنگ مٹیریئل کی ایک کمپنی بنائی اور ان کا کام تھوڑا بہت چک گیا۔ ان کے ساتھ 30 سے 40 لوگ کام کرتے تھے۔ محنت اور کوششوں کے بعد وہ کسی حد تک سیٹ ہو گئے تھے لیکن اب وہ لاپتہ کر دیے گئے۔

فاطمہ بی بی نے بتایا کہ عبدالحفیظ انٹرنیشنل سٹی کے جن فلیٹس میں رہائش پذیر تھے، وہاں بعض لوگ آئے تھے اور سکیورٹی گارڈ سے عبد الحفیظ کے بارے میں سوالات کیے تھے۔ عبدالحفیظ کے خاندان نے سکیورٹی گارڈ سے ہونے والی بات چیت کی بنا پر بتایا ہے کہ یہ لوگ دبئی کی سکیورٹی ایجنسیز کے اہلکار تھے اور اُنھوں نے سکیورٹی گارڈ کو اپنے متعلقہ ادارے کے کارڈ دکھا کر اپنا تعارف بھی کروایا تھا۔

ان کے ایک مرد رشتہ دار نے بتایا کہ ان سکیورٹی ایجنسیز کے اہلکاروں کے ہمراہ اس کمپنی کے اہلکار بھی تھے جن کے پاس سکیورٹی سے متعلق کیمروں کا انتظام ہوتا ہے اور اس کمپنی کو وہاں سرا کہا جاتا ہے۔ فاطمہ نے بتایا کہ دبئی کے سکیورٹی ایجنسیز کے اہلکاروں نے فلیٹس کے سکیورٹی گارڈز سے حفیظ کی رہائش گاہ اور اس پارکنگ ایریا کے بارے میں پوچھا تھا جہاں وہ اپنی گاڑی کھڑی کرتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد جب عبدالحفیظ اپنے گھر کی جانب آئے تو اُنھوں نے ان کو گیٹ پر نہیں روکا بلکہ انھیں پارکنگ ایریا سے اٹھا کر لے گئے۔

فاطمہ بی بی کے مطابق پولیس میں بھائی کی گمشدگی کی اطلاع دی گئی لیکن ابھی تک ان کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔اُنھوں نے دبئی کے حکام سے اپیل کی کہ اگر ان کے بھائی کے خلاف کوئی الزام ہے تو وہ ان کا ٹرائل اپنے قوانین کے مطابق کریں اور ان کو پاکستانی حکام کے حوالے نہ کریں۔

Related Articles

Back to top button