کیا بھارت پاکستان کو معاشی بحران سے نکال سکتا ہے؟

شہباز شریف کے دور اقتدار میں پاکستان مسلسل سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہے۔ پاکستانی روپیہ مسلسل کمزور ہوتا جا رہا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر گرتے چلے جا رہے ہیں اور ٹی ٹی پی کے مہلک حملوں میں درجنوں افراد کی ہلاکت ہو چکی ہے۔پاکستان کے دوست ممالک بھی ایک ایسے وقت میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کا انتظار کر رہے ہیں۔پاکستان کے اندر کی خبریں سنیں تو وہاں سری لنکا جیسی صورتحال پیدا ہونے کا چرچا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پاکستان کی ایسی صورت حال پر ہمسایہ ملک انڈیا کو کتنا فکر مند ہونا چاہیے اور کیا انڈیا پاکستان کی مدد کر سکتا ہے؟ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت موجودہ معاشی حالات میں پاکستان کی امداد کا متمنی ہے لیکن پاکستانی حکومت انڈیا سے امداد کی اپیل کو اپنی ناکامی اور سیاسی موت سے تعبیر کرتی ہے اس لئے مستقبل قریب میں پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے حال ہی میں خبر رساں ایجنسی اے این آئی میں سمیتا پرکاش کے ساتھ ایک پوڈ کاسٹ میں، پاکستان کے موجودہ بحران پر کہا، ’پاکستان کا مستقبل بڑی حد تک پاکستان کے اقدامات اور پاکستان کے آپشنز کے انتخاب پر منحصر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایسی مشکل صورتحال میں کوئی بھی اچانک اور بغیر کسی وجہ کے نہیں پھنستا، اب یہ ان پر منحصر ہے کہ آگے کا راستہ کیا ہوگا، آج ہمارا رشتہ ایسا نہیں ہے کہ ہم اس عمل میں براہ راست شامل ہوں۔
اس وقت پاکستان میں ڈیفالٹ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، ملک کے وزیر دفاع آصف خواجہ تو یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کر چکا ہے تاہم ماہر اقتصادیات اور سابق نگراں وزیر خزانہ سلمان شاہ نے یقین دلایا کہ پاکستان موجودہ صورتحال پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائے گا۔سلمان شاہ نے کہا کہ ’ہمیں اپنے معاشی نظام کو ٹھیک کرنا ہے، یہاں انداز حکمرانی کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، اگر ایسا ہوا تو پاکستان آہستہ آہستہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے گا، اگر ہم طویل مدت کی بات کریں تو جنوبی ایشیا کے لیے، ہمیں تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے اقتصادی تعلقات کی ضرورت ہے لیکن آج کی صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی حالت بہت خراب ہے اور بڑھتی ہوئی سیاسی تلخی معاملات کے بہتر ہونے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔
پاک انڈیا تعلقات ایک عرصے سے سرد خانے میں ہیں اور تنازعات اور شکایات کی فہرست بہت لمبی ہے۔انڈیا کا موقف ہے کہ دہشت گردی اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں چل سکتے اور 2014 میں وزیر اعظم مودی کی حلف برداری میں نواز شریف کو دعوت اور 2015 میں نریندر مودی کا دورہ لاہور تعلقات کو بہتر بنانے کی انڈیا کی کوششوں کی مثالیں تھیں لیکن جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے سے پاکستان ناراض ہے۔پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان نے آر ایس ایس کا ہٹلر کی نازی پارٹی سے موازنہ کیا تھا۔ جموں و کشمیر پر انڈین اقدام کے بعد پاکستان نے انڈیا کے ساتھ تجارت بند کر دی، حالانکہ یہ تجارت سرکاری اور غیر سرکاری طور پر جاری ہے۔ماہر اقتصادیات اجیت رانا ڈے کے مطابق دبئی کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان سالانہ تجارت 15-20 ارب ڈالر ہے۔
انڈین کونسل فار ریسرچ آن انٹرنیشنل اکنامک ریلیشنز کی ڈاکٹر نشا تنیجا کا کہنا ہے کہ انڈیا نے اپنی پالیسی کے تحت پاکستان سے درآمدات پر 200 فیصد ڈیوٹی عائد کی ہے لیکن برآمدات پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ان کے بقول پاکستان کی سرکاری پالیسی تجارت کو روکنا ہے لیکن اگر تجارت ہو رہی ہے تو ہونے دیں۔نشا تنیجا کو امید ہے کہ بین الاقوامی ایجنسیاں پاکستان کی مدد کریں گی اور انھیں نہیں لگتا کہ انڈیا پاکستان کی مالی مدد کرے گا۔وہ کہتی ہیں کہ ’اگر پاکستان تجارت پر سے پابندی ہٹاتا ہے، تو کم از کم وہ سستی اشیاء درآمد کر سکتا ہے۔
دوسری طرف دونوں ملکوں میں ہی عام انتخابات سر پر ہیں۔ اس لیے دونوں ملکوں کے درمیان کسی قسم کی سیاسی سرگرمی کا امکان بہت ہی کم ہے۔پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے 2002 کے گجرات فسادات پر وزیر اعظم مودی پر سخت تبصرہ نے بھی ممکنہ بات چیت یا تعلقات کی بہتری کی امیدوں کو ختم کر دیا ہے تاہم ماضی پر نظر دوڑائیں تو ایسی مثالیں موجود ہیں جب انڈیا نے پاکستان کے لیے مالی مدد کا اعلان کیا تھا۔
2010 میں جب پاکستان میں سیلاب سے تباہی ہوئی تو انڈیا نے مالی امداد کا اعلان کیا تھا۔ اس سے قبل 2005 میں پاکستان میں زلزلے سے ہونے والی تباہی کے بعد بھی انڈیا نے مالی مدد کا وعدہ کیا تھا۔دوسری جانب 2001 میں پاکستان نے گجرات میں آنے والے زلزلے کے بعد انڈیا کو مدد کی پیشکش کی تھی۔لیکن گزشتہ سال جب پاکستان کا تقریباً ایک تہائی حصہ سیلاب سے متاثر ہوا تو انڈیا مدد کا اعلان نہیں کیا۔پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو سے جب ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ کیا انھوں نے سیلاب سے ہونے والی تباہی پر انڈیا سے مدد مانگی ہے یا انڈیا نے مدد کی پیشکش کی ہے تو انھوں نے دونوں سوالوں کا جواب ’نہیں‘ میں دیا ۔
دوسری جانب انڈین میڈیا میں ملک کی وزارت خارجہ کے ذرائع کے حوالے سے یہ خبر سامنے آئی ہے کہ اگر پاکستان سے مدد کی درخواست کی گئی تو انڈیا مدد کرے گا تاہم سرکاری سطح پر ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔تاہم ایک حلقے میں یہ سوچ ضرور پائی جاتی ہے کہ انڈیا کو پاکستان کی مدد کرنی چاہیے۔
ماہر اقتصادیات اجیت راناڈے نے کہا اگر ہم سری لنکا، شام اور ترکی کو انسانی بنیادوں پر امداد دے سکتے ہیں تو ہمیں پاکستان کے لیے بھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔ان کا کہنا تھا کہ 50 ملین ڈالر ایک اچھی شروعات ہو سکتی ہے۔ اس کا کیا نقصان ہو سکتا ہے؟ ہم جی 20 کے چیئرمین ہیں۔ ہم ایک عالمی طاقت بننا چاہتے ہیں اور ایسی مدد کرنا اس سوچ کے مطابق ہے، راناڈے کے مطابق انڈیا ہر سال 60 سے 70 ارب ڈالر کا ریفائنڈ پیٹرول اور ڈیزل دنیا کو برآمد کرتا ہے اور پاکستان اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت بڑھ سکتی ہے۔ماہر اقتصادیات اجیت راناڈے کے مطابق ’انڈیا انسانی بنیادوں پر پاکستان کی مدد کرنے کا سوچ سکتا ہے، کیونکہ پاکستان میں بگڑتے ہوئے انسانی حالات کی وجہ سے لوگوں کے انڈیا آنے کا خطرہ ہے۔
لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان انڈیا سے مدد کی درخواست کر سکتا ہے؟پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں ایسا ہونا ناممکن سی بات لگتی ہے۔پاکستانی ماہر اقتصادیات سلمان شاہ کا بھی ایسا ہی خیال ہے۔ ان کے مطابق آج کی صورتحال میں ’کوئی بھی پاکستانی حکومت انڈیا سے مدد نہیں لے گی۔وہ کہتے ہیں ’مجھے نہیں لگتا کہ کسی بھی حکومت کے لیے یہ سیاسی طور پر سمجھداری ہوگی کہ وہ انڈیا سے کسی قسم کی مدد یا تعاون حاصل کرے۔‘’یہ فی الحال ممکن نہیں ہے کیونکہ پاکستان کے نقطہ نظر سے انڈیا کی حکومت پاکستان کی دوست نہیں ہے۔
دوسری جانب ٹائمز آف انڈیا کے ایک پوڈ کاسٹ میں جب پاکستانی دفاعی ماہرعائشہ صدیقہ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’برسوں سے افغانستان دنیا کے لیے جہنم کی طرح رہا ہے، پاکستان نے اس میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ لیکن آپ نہیں چاہیں گے کہ پاکستان بھی اس فہرست میں شامل ہو جائے۔‘انھوں نے کہا کہ ’میں جانتی ہوں کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے دہلی میں بہت کم حمایت حاصل ہے، شاید یہ سوچ ہے کہ اس پرانے دشمن کو سڑنے دو، اسے جہنم کی آگ میں جلنے دو، لیکن انڈیا کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسے ایسے سمجھدار لوگوں کی ضرورت ہے، جو پاکستان کے بارے میں سوچتے ہیں۔‘’میں انڈیا سے رحم کی بھیک نہیں مانگ رہی، میں یہ کہہ رہی ہوں کہ انڈیا اپنی آنکھیں بند نہ کرے تاکہ یہ پرانا دشمن پڑوسی خود کو تباہ نہ کر لے۔‘
عائشہ صدیقہ نے کہا کہ ’جب تک پاکستان میں مثبت سوچ ابھرتی ہے، انڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان کی طرف جہاں تک ممکن ہو ہمدردی کی نگاہ سے دیکھے۔‘انھوں نے کہا کہ وہ پاکستان کو مالی مدد دینے کی بات نہیں کر رہی ہیں۔عائشہ کے مطابق، وہ جانتی ہیں کہ ’دہلی اور واشنگٹن میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان نے وکٹم ہونے کا فائدہ اٹھایا ہے، لیکن آج صورتحال تشویشناک ہے۔