متوقع چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر کون ہیں؟

عمران خان کے دور حکومت میں سرکاری ٹٹو کا کردار ادا کرنے والے نیب کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی جگہ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مقبول باقر کے نام پر اتفاق رائے کا قوی امکان پیدا ہو گیا ہے کیونکہ انہیں اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے والی ایک غیر متنازعہ شخصیت سمجھا جاتا ہے۔ اپنے کیرئیر کے دوران جسٹس مقبول باقر کو کراچی میں دہشت گردوں کی جانب سے ایک خوفناک قاتلانہ حملے کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا جس میں وہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔
اسلام آباد سے آنے والی اطلاعات کے مطابق حکومت اور اسکی اتحادی جماعتوں کا جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی جگہ جسٹس (ر) مقبول باقرکو چیئرمین نیب لگانے پر اتفاق ہو چکا ہے۔ذرائع کے مطابق حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سمیت دیگر اتحادی جماعتوں نے چیئرمین نیب کی تقرری کے حوالے سے مشاورت کی جس کے دوران جسٹس (ر) مقبول باقر کے نام پر اتفاق ہو گیا۔ جسٹس مقبول باقر کا نام وزیراعظم شہباز شریف اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کی ملاقات کے بعد زیر غور آیا ہے۔ اگر قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کو جسٹس (ر) مقبول باقر کے نام پر کوئی اعتراض نہ ہوا تو انہیں اگلا چیئرمین نیب لگایا جائے گا۔
یاد رہے کہ جسٹس (ر) مقبول باقر سندھ ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ میں پروموٹ ہوئے تھے اور انکے بطور جج کردار پر کبھی کوئی داغ نہیں لگا، جبکہ عمران دور حکومت میں سرکاری ٹٹو کا کردار ادا کرتے ہوئے اپوزیشن قیادت کے خلاف احتساب کا ڈنڈا گھمانے والے موجودہ چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کے عہدے کی مدت 2 جون 2022 کو ختم ہورہی ہے۔ چونکہ عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی استعفی دے چکے ہیں لہذا اب ایوان میں اپوزیشن لیڈر کا کردار راجہ ریاض ادا کر رہے ہیں ہیں جو تحریک انصاف کے جہانگیر ترین گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہذا جسٹس مقبول باقر کے نام پر اتفاق رائے کا قوی امکان ہے۔ جسٹس مقبول باقر سپریم کورٹ کے ان چند ججوں میں شامل تھے جو جسٹس قاضی فائز عیسی کی طرح بطور جج اپنی ساکھ برقرار رکھنے میں کامیاب رہے اور ان پر کسی قسم کا کوئی الزام نہیں ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرح جسٹس مقبول باقر بھی اپنے اصولی موقف کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ 4 اپریل 2022 کو جسٹس مقبول باقر نے الوداعی تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ حساس نوعیت کے مقدمات میں مخصوص ججوں کو شامل نہ کرنے سے عدلیہ کی آزادی اور وقار مجروح ہوتا ہے۔ اپنے اعزاز میں دیئے گئے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ جج کی معیاد اور فیصلے طاقتور حلقوں کی خوشنودی سے مشروط کرنا تباہ کن ہے۔
انہوں نے کہا کہ سمجھتا ہوں کہ تمام تر کوششوں کے باوجود عدلیہ سائلین کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکی، انہوں نے کہا کہ آئینی ذمہ داری کی ادائگی کے دوران سیاسی اور سماجی وابستگیاں آڑے نہیں آنی چاہئیں، غیر متوازن جوڈیشل ایکٹیوازم قانون کی حاکمیت کیلئے موت کا سبب ہے۔
یاد رہے کہ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر سپریم کورٹ کے اس بینچ میں بھی شامل تھے جس نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف وزیر اعظم عمران خان کی سفارش پر صدر علوہ کی جانب سے بھیجا گیا صدارتی ریفرنس مسترد کیا تھا۔ اپنے فیصلے میں جسٹس مقبول باقر نے لکھا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوانے کا فیصلہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کو نظرانداز کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کابینہ ایگزیکٹو کا اعلیٰ ادارہ ہے جس کی اعلیٰ آئینی حیثیت ہے، وزیر اعظم کی جانب سے اسے فیصلہ سازی کے لیے محض ربڑ اسٹیمپ کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
19 جون 2020 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق فیصلے میں اپنے 68 صفحوں کے نوٹ میں جسٹس مقبول باقر نے کہا تھا کہ وزیر اعظم کی جانب سے فیصلہ سازی کے لیے کابینہ کو شامل نہ کرنہ اور اسے ربر اسٹیمپ بنادینا آئین کی اصل روح کی خلاف ورزی ہے۔ سن کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کابینہ کے طرز کی حکومت کو تبدیل کرکے وزیر اعظم کے طرز کی حکومت بنادیا جائے جو آئین سے متصادم تصور ہے۔ جسٹس باقر نے وضاحت دی کہ ‘اگر ہم وزیر اعظم کے عہدے کو کابینہ کے مترادف سمجھتے ہیں تو اس کے بعد وزیر اعظم خود ایک فرد کی حیثیت سے وفاقی حکومت بن جاتے ہیں، یہ ناقابل فہم ہے’۔

اداکارہ صاحبہ نے کبھی بیٹی کی خواہش کیوں نہیں کی؟

جسٹس باقر نے متنبہ کی کہ یہ آئینی جمہوریت سے دشمنی ہے جو بادشاہ لوئس چودھویں کے مشہور دعوے کی یاد دلاتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ‘میں ہی ریاست ہوں’۔ انہوں نے فیصلے میں لکھا کہ ‘اس طرح وزیر اعظم کے اپنے اقدام پر کیے جانے والے کسی بھی فیصلے میں قانون یا آئین کا اختیار موجود نہیں’۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر فیصلہ سناتے ہوئے اسے کالعدم قرار دیا تھا۔ عدالت عظمیٰ کے 10 رکنی بینچ میں سے جسٹس مقبول باقر سمیت 7 ججوں نے ریفرنس مسترد کیا تھا جبکہ جسٹس عمر عطا بندیال سمیت 3 ججوں نے اس فیصلے سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ لہذا جسٹس مقبول باقر کا چیئرمین نیب بن جانا جہاں عمران خان کے لیے ایک اچھی خبر نہیں ہوگی وہیں چیف جسٹس عمر عطا بندیال بھی اس فیصلے پر خوش نہیں ہوں گے۔

Related Articles

Back to top button