بھارت سے سستا پیازاورٹماٹر کیوں نہیں آنے دیا جارہا؟

پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں فصلیں برباد ہونے کے باعث پیاز اور ٹماٹر نایاب ہو چکے ہیں اور ان کی قیمتیں کئی سو گنا بڑھ چکی ہیں لیکن پھر بھی پاکستانی حکومت بھارت سے سستا پیاز اور ٹماٹر منگوانے کی اجازت نہیں دے رہی۔ معاشی ماہرین نے وفاقی حکومت کو تجویز دی ہے کہ پیاز اور ٹماٹر کی درآمد پر تین ماہ کے لیے ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی چھوٹ دینے کے علاوہ انڈیا سے ان دونوں سبزیوں کی درآمد کی اجازت دی جائے۔ تاہم وفاقی حکومت اس حوالے سے فیصلہ نہیں کر پارہی۔

خیال رہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تجارت کا سلسلہ اگست 2019 سے بند ہے جب پاکستان نے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی پر ردعمل دیتے ہوئے انڈیا سے تجارت پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی جو تاحال برقرار ہے۔ پاکستان میں ٹماٹر و پیاز کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سیلاب کی وجہ سے ان کی متاثر ہونے والی پیداوار ہے جس کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں پیاز کی ماہانہ کھپت 150000 ٹن اور ٹماٹر کہ ماہانہ کھپت 50000 ٹن ہے جبکہ سیلاب کے بعد ہول سیل مارکیٹ میں پیاز کی قیمت میں 100 سے 150روپے اور ٹماٹر کی قیمت میں 200 سے 250 روپے کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ایسے میں اگر درآمدی پیاز اور ٹماٹر نہیں آیا تو ان قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ پنجاب اور سندھ میں ٹماٹر اور پیاز کی فصل کا بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے لہذا معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر محدود مدت کے لیے انڈیا سے سبزیوں کی درآمد کھول دی جائے تو اس کا فائدہ پاکستان میں پیاز اور ٹماٹر کی قیمت میں کمی کی صورت میں ہو گا۔

پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے ہونے والے نقصان میں زراعت کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں کپاس اور چاول کی فصل کو پہنچنے والے نقصانات کے ساتھ پھل و سبزیوں کے کاشت کے علاقے زیرِ آب آنے سے ان کی پیداوار شدید متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں سیلاب کے بعد ایک جانب مختلف فصلوں کو نقصان پہنچا تو اس کے ساتھ سیلاب کی وجہ سے راستوں کی بندش کے باعث سبزیوں اور پھلوں کی سپلائی میں رکاوٹ کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ تمام سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے تاہم سب سے زیادہ اضافہ پیاز اور ٹماٹر کی قیمت میں دیکھا گیا جن کہ قیمتیں دو سو سے چار سو فیصد تک بڑھی ہیں۔ پیاز اور ٹماٹر کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ملک میں پھلوں اور سبزیوں کے درآمد کنندگان اور تاجروں کی جانب سے انڈیا سے ان کی درآمد کی تجویز سامنے آئی ہے۔

آسام میں انتہا پسند مودی سرکار نے چوتھا مدرسہ شہید کردیا

اس سلسلے میں تاجروں کی نمائندہ تنظیم نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ تین مہینے کے لیے انڈیا سے ٹماٹر اور پیاز کی درآمد کی اجازت دی جائے تاکہ اس کی رسد کو بڑھا کر قیمتوں میں استحکام لایا جا سکے۔ ہمسایہ ملک سے ٹماٹر اور پیاز کی درآمد کی تجویز وفاقی وزارت تجارت کے اجلاس میں دی گئی جس میں حالیہ بارشوں سے سبزیوں کی پیداوار متاثر ہونے اور مارکیٹ میں قلت کی صورتحال پر غور کیا گیا تھا۔ اجلاس میں پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل امپورٹرز ایکسپورٹرز مرچنٹس ایسوسی ایشن نے مارکیٹ میں استحکام کے لیے فوری طور پر پیاز اور ٹماٹر کی درآمد پر تین ماہ کی مدت کے لیے ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی چھوٹ کے علاوہ انڈیا سے بھی ان دونوں سبزیوں کی درآمد کی اجازت کی تجویز دی۔ ایسوسی ایشن کے پیٹرن انچیف وحید احمد کا کہنا ہے کہ ’سیلاب سے سندھ میں پیاز کی 80 فیصد سے زائد فصل برباد ہو گئی جبکہ ٹماٹر کی فصل کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں بھی پیاز کے سیزن کے دوران طوفانی بارش اور سیلاب سے فصل تباہ ہوئی ہے۔‘ انھوں نے کہا ملک میں پیاز اور ٹماٹر کی طلب پوری کرنے کے لیے یہ سبزیاں انڈیا سے بھی درآمد کرنا ہوں گی۔ انھوں نے کہا آلو کی فصل تیار ہو کر پہلے ہی گوداموں میں پہنچ چکی ہے اس لیے اس کی درآمد کی ضرورت نہیں جبکہ دوسری سبزیاں جیسے کہ بینگن، توری ، بھنڈی وغیرہ کی درآمد کی ضرورت اس لیے نہیں کیونکہ ایک تو ان کے خراب ہونے کا خطرہ ہے دوسری جانب پاکستان میں ان کی پیداوار متاثر ہوئی ہے لیکن ختم نہیں ہوئی جبکہ اس کے برعکس پیاز اور ٹماٹر کی پوری فصل ہی متاثر ہوئی ہے۔

وحید احمد نے بتایا کہ دیگر ملکوں سے پیاز اور ٹماٹر کی درآمد کے لیے سودے طے کرنا شروع کر دیے جائیں گے تاہم انڈیا سے درآمد کی اجازت ابھی نہیں ملی۔ پاکستان میں تجارت کے لیے وزیر اعظم کے کوآرڈینیٹر رانا احسان افضل کا کہنا ہے کہ ان کی اطلاع کے مطابق ابھی تک کوئی ایسا فیصلہ نہیں ہوا اور وہی فیصلہ کیا جائے گا جو ملک کے فائدے میں ہو گا۔‘ وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو نے بھی منگل کو سیلاب زدگان کے لیے حکومتِ پاکستان اور اقوامِ متحدہ کی ہنگامی اپیل کے اجرا کے موقع پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال انڈیا سے تجارت کی بحالی پر کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔

دوسری جانب انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے پیر کو ایک ٹویٹ میں پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر دکھ کا اظہار کیا تھا اور امید ظاہر کی تھی پاکستان میں جلد ہی حالات معمول پر آ جائیں گے۔ وزیر اعظم مودی کے اظہار ہمدردی کے بعد انڈیا میں بعض حلقوں میں یہ بات ہو رہی ہے کہ کیا انڈیا کو ان مشکل حالات میں پاکستان کی مدد کرنی چاہیے۔ معروف انڈین تجزیہ کار نروپما سبرا منین نے ٹوئٹر پر اس بارے میں لکھا کہ 2010 میں پاکستان میں سیلاب کے دوران انڈیا نے اقوام متحدہ کے پاکستان ایمرجنسی فنڈ میں دو کروڑ ڈالر اور عالمی فوڈ پروگرام کے ذریعے بھی پچاس لاکھ ڈالر دیے تھے تو کیا انڈیا اس بار بھی مشکل کی گھڑی میں پاکستان کی مدد کے لیے آگے آئے گا؟

Related Articles

Back to top button