کیا جنرل امجد کی گرفتاری یوتھیوں کے لئے پیغام ہے؟

عمرانڈو دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کی گرفتاری کا موضوع سوشل میڈیا سمیت کئی حلقوں میں زیر بحث ہے۔کچھ ناقدین کے خیال میں ان کی گرفتاری ظاہر کرتی ہے کہ ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کے خلاف سخت رویہ اپنا رہی ہے جبکہ حکومت کا موقف ہے کہ اگرکوئی عوام کو اکسا ئے یا اشتعال پھیلائے گا، تو اس کے خلاف قانون حرکت میں آئے گا۔
خیال رہے کہ امجد شعیب کو اتوار کی رات ایک بجے کے قریب گرفتار کیا گیا ہے۔ امجد شعیب، جو فوج میں کئی اہم عہدوں پر فرائض رہ چُکے ہیں، کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے پرجوش حامی ہیں۔تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ کسی بھی فوجی جرنیل کو عوام کو اکسانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ جنرل امجد شعیب کو اسلام آباد کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں پولیس کو ان کا تین روزہ ریمانڈ دیا گیا ہے۔
پاکستان میں ایک عام تاثر ہے کہ ریٹائرڈ فوجی افسران کی ایک بڑی تعداد عمران خان کو نہ صرف پسند کرتی ہے بلکہ ان کی پرزور حمایت بھی کرتی ہے۔ انہی ریٹائرڈ افسران میں سے کئی ایک نے تحریک انصاف کے دور حکومت میں پاکستانی میڈیا پر پی ٹی آئی کا بھرپور دفاع بھی کیا اور نون لیگ سمیت اس وقت کی حزب اختلاف کی جماعتوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد ان ریٹائرڈ فوجی افسران کو طاقتور حلقوں کی طرف سے یہ پیغام دیا گیا تھا کہ وہ مزید میڈیا کے سامنے اپنا نقطہ نظر پیش نہ کریں۔تاہم امجد شعیب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کچھ پروگراموں میں شرکت بھی کی اور اپنے ویلاگ کے ذریعے بھی موجودہ حکومت پر سخت تنقید کی۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے پہلے دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفی کا کہنا ہے کہ ایک ریٹائرڈ سینیئر افسر کی گرفتاری دوسروں کے لیے ایک پیغام ہے۔ انہوں نے بتایا، ”اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت فاشسٹ ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔ جنرل امجد نے نہ فوج اور نہ ہی ملک کے خلاف کوئی بات کی تھی۔ اب حکومت پر تنقید کرنے کو بھی اتنا بڑا جرم بنا دیا گیا ہے۔ اب دوسرے ریٹائرڈ افسران کی بھی گرفتاری ہو سکتی ہے۔‘‘
اتحادی حکومت کے کچھ ارکان نے جی ایچ کیو پر بلواسطہ طور پر یہ الزام لگایا کہ کچھ حلقے اب بھی پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کر رہے ہیں لیکن کچھ سیاسی مبصرین کے خیال میں جنرل امجد شعیب کی گرفتاری اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف سخت رویہ اپنانے جا رہی ہے۔
دوسری طرف لاہور سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ یہ گرفتاری واضح اشارہ ہے کہ اب جی ایچ کیو تحریک انصاف کے خلاف صرف سخت رویہ اپنا رہی ہے۔ حبیب اکرم نے بتایا، یہ گرفتاری اس بات کی عکاس ہے کہ اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کے خلاف سخت رویہ اپنا رہی ہے ورنہ جنرل امجد شعیب نے جو بات کی ہے اور میڈیا کے ذریعے جو کچھ عوام کے سامنے آیا ہے وہ کوئی اتنی سخت بات نہیں کہ اس پر مقدمہ دائر کیا جائے۔ مقدمہ دائر کیا جانا اور ان کو گرفتار کیے جانا یہ ظاہر کرتا ہے تحریک انصاف کے خلاف سختیاں بڑھ رہی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے حامی اس گرفتاری کو حکومت کی بوکھلاہٹ قرار دے رہے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ کیونکہ حکومت ڈیرہ غازی خان میں بری طرح شکست سے دوچار ہوئی ہے، اس لیے اس شکست کو چھپانے کے لیے اس نے جنرل امجد شعیب کو گرفتار کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے حامی جنرل امجد شعیب کی گرفتاری کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بھی چلا رہے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے قریب سمجھے جانے والے صحافی بھی اس گرفتاری کی بھرپور مذمت کر رہے ہیں۔ کچھ غیر جانبدار صحافی جیسے مبشر زیدی نے بھی اس کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ وہ جنرل امجد شعیب کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتے لیکن ان کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر مصطفٰی نواز کھوکھر نے بھی اس گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
تاہم حکومت کا دعوٰی ہے کہ جنرل امجد شعیب کی گرفتاری بالکل صحیح اور قانون کے مطابق ہے۔ جنرل امجد شعیب عوام میں اشتعال پھیلا رہے تھے اور اس لیے انہیں گرفتار کیا گیا ہے۔پاکستان تحریک انصاف میں عمران خان کے بعد جنرل امجد سب سے زیادہ بد زبان تھے، جو جمہوری قوتوں کے خلاف دشنام طرازی کرتے تھے اور جھوٹے الزام لگایا کرتے تھے ایسے لوگوں کو گرفتار کرنا بالکل صحیح ہے۔ جو دوسرے ریٹائرڈ فوجی افسران عوام میں اشتعال پھیلا رہے ہیں، ان کو بھی گرفتار کیا جانا چاہئے۔
دفاعی تجزیہ کار اور سابق بریگیڈیئر سید نذیر نے کے مطابق ماضی میں امجد شعیب کو پاکستان فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کی طرف سے تجزیہ کاروں کی فہرست میں اہم سمجھا جاتا تھا لیکن بعد میں ان کے خیالات ایک سیاسی جماعت کے قریب ہوتے گئے۔بریگیڈیئر ریٹائرڈ سید نذیر کے بقول، “اگر آپ کسی سیاسی جماعت کی سوچ کے ساتھ بہت زیادہ متفق ہو چکے ہوں تو آپ کو اس جماعت کا حصہ بن جانا چاہیے لیکن اس طرح نہیں ہونا چاہیے کہ آپ فوج کے تجزیہ کار ہوں اور ایک سیاسی جماعت کی بھرپور حمایت کر رہے ہوں۔”ان کا دعویٰ تھا کہ کچھ عرصہ قبل امجد شعیب اور کئی دیگر سابق فوجی افسران کو جی ایچ کیو طلب کیا گیا تھا، جہاں انہیں اس حوالے سے احتیاط برتنے کا مشورہ دیا گیا تھا لیکن یوٹیوب پر ان کے وی لاگز اور تجزیوں میں سیاسی عنصر زیادہ تھا۔انہوں نے کہا کہ فوج نے خود کو غیرسیاسی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے تمام ایسے اقدامات سے خود کو دور کیا جا رہا ہے جن سے جانب داری یا کسی سیاسی جماعت کے قریبی تعلق کو ظاہر کیا جا رہا ہو، لہٰذا فوج نے ایسے تجزیہ کاروں سے بھی خود کو دور کر لیا ہے۔
بریگیڈیئر ریٹائرڈ سید نذیر کے مطابق “دفاعی تجزیہ کار کو سیاست سے دور رہتے ہوئے صرف میرٹ پر دفاع کے حوالے سے بات کرنی چاہئے، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے امجد شعیب کےخلاف درج مقدمے کو مضحکۂ خیز قرار دیا ہے۔انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ جبر اور عدل کا ناپید ہونا بہرحال ریاست اور معاشرے کو دیمک کی طرح کھا جاتا ہے۔امجد شعیب کے کئی خیالات سے انہیں اختلاف رہا ہے لیکن یہ رویہ قابلِ مذمت ہے۔انہوں نے ‘الفاظ کے ذریعے ریاست کو کمزور کرنے کے الزام’ پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ کبھی ریاستیں بھی الفاظ کے ذریعے کمزور ہوئی ہیں؟
خیال رہے کہ پاکستان میں فوج کے ادارے کو انتہائی طاقتور سمجھا جاتا ہے لیکن ملک میں کچھ مواقع پر فوجی افسران کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ انیس سو پچاس کی دہائی میں مشہور پنڈی سازش کیس میں معروف ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض، کیپٹین ظفراللہ پوشنی اور میجر اسحاق سمیت کئی افسران کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی چند فوجی افسران کو نظر بند یا گرفتار کیا گیا تھا جبکہ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ نے بھی بنگلہ دیش کے بننے کے بعد کچھ فوجی افسران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی۔
جنرل ضیاء کے دور میں بھی کچھ فوجی افسران کو یا تو فوج چھوڑنے پر مجبور کیا گیا یا پھر انہیں نظربند یا یا محدود وقت کے لیے گرفتار کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور اقتدار میں میجر جنرل ظہیر الاسلام اور کچھ سینیئر افسران کو ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ جنرل مشرف، جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل راحیل شریف اور جنرل باجوہ کے ادوار میں بھی یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مختلف فوجی افسران کو گرفتار کیا گیا یا ان کے خلاف ادارہ جاتی کارروائیاں کی گئیں۔