جنرل باجوہ نے عمران کا ایکسٹینشن کا فارمولا رد کر دیا

سینئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے عہدے میں مزید توسیع کی تجویز قبول کرنے کا کوئی امکان اس لیے نہیں کہ آرمی چیف نومبر کے آخر تک ریٹائر ہونا چاہتے ہیں، اور وہ مزید توسیع نہیں لینا چاہتے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ رواں سال اپریل میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ جنرل باجوہ اب نہ تو مزید کوئی توسیع لینا چاہیں گے اور نہ اسے قبول کریں گے۔ یہ اعلان کرتے ہوئے فوجی ترجمان نے سیاسی جماعتوں اور عوام سے بھی کہا تھا کہ افواج پاکستان کو سیاسی تنازعات میں نہ گھسیٹا جائے۔ یعنی ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آرمی چیف کے عہدے میں توسیع سیاسی فیصلہ ہو گی جس سے سیاسی تنازعات کھڑے ہوں گے۔

تاہم دوسری جانب عمران خان نئے آرمی چیف کے تقرر کو متنازعہ بنانے کے لیے مسلسل بیان بازی کر رہے ہیں۔ پہلے ایک جلسے میں انہوں نے یہ دھمکی دی کہ میں کسی بھی صورت میں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو نیا آرمی چیف نہیں لگانے دوں گا۔ پھر انہوں نے ایک انٹرویو میں یہ تجویز پیش کردی کہ نئے آرمی چیف کا تقرر اگلے عام انتخابات کے بعد نئی حکومت کو کرنے کی اجازت دی جائے اور اس دوران جنرل باجوہ اپنے عہدے پر برقرار رہیں۔ تاہم خان صاحب بھول گئے کہ نئے آرمی چیف کا تقرر نومبر 2022 میں ہونا ہے جبکہ عام انتخابات اگلے برس اکتوبر میں ہونے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ملک میں ایک منتخب جمہوری حکومت موجود ہے اور آرمی چیف کی تعیناتی کا اختیار وزیر اعظم کا ہے، اپوزیشن کا نہیں۔ ایسے میں عمران خان کی جانب سے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ شہباز شریف وزیراعظم لگانے کا اپنا آئینی اختیار استعمال نہ کر پائیں۔ ان کا موقف ہے کہ اگر موجودہ حکومت نے آرمی چیف لگایا تو وہ متنازع ہو جائے گا حالانکہ ایک اتحادی حکومت کا نامزد کردہ آرمی چیف زیادہ قابل قبول ہو گا۔

بغاوت کے مقدمے میں‌گرفتار شہباز گل ضمانت پر رہا

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران اقتدار سے نکل جانے کے باوجود خود کو وزیراعظم سمجھتے ہیں اور اسی لیے صبح شام ایسی خواہشات کا اظہار کرتے ہیں جو آئین اور قانون کے دائرے میں نہیں آتیں۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک روز ایک خواہش کا اظہار کرتے ہیں اور دوسرے روز ہوش میں آنے کے بعد اس کی تردید کر دیتے ہیں۔ عمرانڈو کہلانے والے صحافی کامران خان کے ساتھ انٹرویو میں عمران نے اگلے عام انتخابات کے بعد نئی حکومت کی تشکیل تک جنرل باجوہ کو برقرار رکھنے کی تجویز دی تھی۔ تاہم مخالفین کی جانب سے اس تجویز کو جنرل باجوہ کے بوٹ پالش کرنے کے مترادف قرار دیے جانے کے بعد خان صاحب نے فرمایا کہ میں نے توسیع کی بات نہیں کی اور صرف یہ کہا ہے کہ وہ اگلے الیکشن تک برقرار رہیں۔ شیریں مزاری نے یہ چورن پیش کیا کہ عمران خان نے آرمی چیف کے حوالے سے جو کچھ کہا اس بارے سینئر اینکر نے غلط حوالہ دیا، لیکن دوسری جانب پارٹی ترجمان فواد چوہدری نے کہا کہ عمران نے آرمی چیف کی توسیع بارے جو تجویز دی ہے وہ اگلے الیکشن تک سٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لئے ہے۔

تاہم اس معاملے پر خبر دیتے ہوئے سینئر صحافی انصار عباسی نے کہا ہے کہ عمران خان نے جس مقصد کے لیے جنرل قمر باجوہ کو توسیع دینے کی بات کی ہے وہ پورا نہیں ہو پائے گا کیونکہ جنرل باجوہ کو مزید کام کرنے میں دلچسپی نہیں اور وہ رواں سال نومبر کے بعد برقرار نہیں رہیں گے۔ عجیب بات ہے کہ عمران اپریل میں اپنی حکومت کی برطرفی کے بعد سے مسلسل جنرل قمر باجوہ کو مختلف ناموں سے پکارتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے اور یہ بھی کہتے تھے کہ انہیں وزیراعظم کے عہدے سے ہٹانے کے ذمہ دار بھی وہی ہیں۔ لیکن اب اچانک عمران خان نے ایک بڑا یوٹرن لیتے ہوئے جنرل قمر باجوہ کے عہدے میں توسیع کی تجویز دے دی ہے جس پر خود ان کی اپنی جماعت کے لیڈر بھی حیران اور پریشان ہیں۔

خیال رہے کہ اپنی حکومت کے قیام سے قبل، عمران خان سروسز چیف کو عہدے میں توسیع دینے کے مخالف تھے۔ انہوں نے پہلا یو ٹرن موجودہ آرمی چیف جنرل باجوہ کو عہدے میں توسیع دے کر لیا، اپنی حکومت میں وہ آرمی چیف کی تعریف کرتے رہے ہیں۔ تاہم، رواں سال اپریل میں وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سے انہوں نے موجودہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اور عسکری ہائی کمان کے حوالے سے یو ٹرن لے لیا اور ان پر ہر طرح کے الزامات عائد کیے۔ اب، وہ چاہتے ہیں کہ جنرل باجوہ آئندہ انتخابات پر عہدے پر کام کرتے رہیں تاکہ نئی حکومت نئے آرمی چیف کا تقرر کر سکے۔ تاہم ان کی یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔

Related Articles

Back to top button