عمران اور باجوہ ایک دوسرے کی ٹکر کے دھوکے باز کیسے نکلے؟

چودھری پرویزالٰہی اور مونس الٰہی کی جانب سے جنرل قمر باجوہ کو پرو عمران خان ثابت کرنے کی خاطر گواہیاں دیے جانے کے باوجود عمران اور ان کے عمرنڈوز سابق آرمی چیف پر لعن طعن جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اپنے تازہ انٹرویو میں عمران نے جنرل باجوہ کو ڈبل گیم کرنے والا دھوکے باز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں ایکسٹینشن دینا ان کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی، لیکن یہ بیان داغتے وقت خان صاحب بھول گئے کہ باجوہ کی ایک اور ایکسٹینشن کی تجویز تو انہوں نے پچھلے ماہ ایک مرتبہ پھر دی تھی۔

اس سے پہلے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم ایک پریس بریفنگ میں بتا چکے ہیں کہ خان صاحب نے اپنی حکومت بچانے کے لیے جنرل باجوہ کو تاحیات آرمی چیف کے عہدے پر برقرار رہنے کی پیشکش کی تھی۔ اس دوران پرویزالٰہی اور مونس الٰہی نے دعوی ٰکیا ہے کہ انہیں عمران کا ساتھ دینے کے لئے جنرل باجوہ نے کہا تھا۔

ایسے میں سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ اور عمران کے پچھلےچار برس کے اعمال کا جائزہ لیا جائے تو سمجھ آتی ہے کہ دونوں ایک ہی قماش کے اور ایک دوسرے کی ٹکر کے دھوکے باز تھے جو بالآخر بے نقاب ہو چکے ہیں۔

اعتراف اور پچھتاوے، احساس اور ادراک، زوال اور ملال کے ان لمحوں میں راز اور ہمراز دونوں اب الگ الگ صفحوں پر ہیں۔ وہ باجوہ اور عمران جو کبھی خوشی اور غم کی سانجھ رکھتے تھے اب صرف درد کے قصے بیان کر رہے ہیں۔

وقت کہاں سے کہاں لے آیا ہے۔ جنرل قمر باجوہ کیا رخصت ہوئے، ٹی وی سکرین پر جلوہ افروز عمران خان ہر روز ایک نئی غلطی، ایک نیا پچھتاوا لے بیٹھتے ہیں، ہاتھ ملتے ہیں اور شکوہ صرف یہ کرتے ہیں کہ کاش انہوں نے جنرل باجوہ پر اعتبار نہ کیا ہوتا۔

دوسری جانب باجوہ کے بھی ایسے ہی جذبات ہیں اور وہ پرائیویٹ محفلوں میں یہ گلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ انہوں نے عمران کو وزیراعظم بنوانے کے لیے بدنامی تک مول لی لیکن وہ احسان فراموش نکلا اور شر پر اتر آیا۔

جنرل باجوہ نے شہباز حکومت گرانے کی دھمکی کیوں دی؟

اس معاملے پر بی بی سی کے لیے تازہ تجزیے میں معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ جنرل باجوہ کے ’دُکھ‘ کی داستان بھی کچھ کم نہیں اور چھ سات گھنٹوں پر محیط یہ داستان وہ کچھ عرصہ قبل ایک بریفنگ میں سُنا چکے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کہانی کے تین مرکزی کردار تھے جنھوں نے خود اپنے ہی کرداروں کو آئندہ کئی سالوں کے لیے منتخب بھی کر لیا تھا۔

بُرا ہو اُن سپنوں کا جو ادھ کُھلی آنکھوں سے دیکھے گئے اور تعبیر تقدیر کے بے رحم ہاتھوں انجام پذیر ہوئی۔دھیرے دھیرے کھلنے والی اس کہانی کی کئی تہیں ہیں۔ کچھ منظر عام پر آ چکیں اور کچھ کو ابھی سامنے آنا باقی ہے۔ سکرپٹ رائٹر، مرکزی کردار اور ڈائریکٹر سب ایک صفحے کا کام سرانجام دے رہے تھے۔ چھوٹے بڑے فنکار اس بڑی کاسٹ کا حصہ تھے۔

عاصمہ بتاتی ہیں کہ اسلام آباد کے ایوانوں اور سیاسی حلقوں میں گزرتے دسمبر میں یہ بحث دبے لفظوں جگہ لے چکی تھی کہ پندرہ سالہ منصوبہ تشکیل پا چکا جسے کسی صورت تکمیل سے روکا نہیں جا سکتا۔ 2018 کے انتخابات میں اُس کی پہلی اینٹ رکھی جا چکی تھی۔

پی ڈی ایم جماعتوں میں تشویش تھی کہ جمہوری نظام میں غیر جمہوری پیوند کاری اور پارلیمانی نظام میں غیر پارلیمانی منصوبہ ترتیب دیا چکا کہ جس کی آخری منزل صدارتی نظام تھی۔کئی ایک خدشات میں ڈوبی پی ڈی ایم قیادت عدم اعتماد کے ایجنڈے پر اکٹھی ہوئی تو طاقت کی مثلث جمع ہونے کی بجائے تقسیم ہوتی دکھائی دی۔

انہی دنوں پی ٹی آئی میں شامل ایک شخصیت جو تب عمران کے ساتھ تھی لیکن تحریک انصاف چھوڑنے کے لیے پر تول رہی تھی، خود اُسے جنرل باجوہ کے دفتر سے پیغام بھجوایا گیا کہ وہ پی ٹی آئی نہ چھوڑیں کیونکہ اگلے انتخابات میں تحریک انصاف ہی وہ واحد جماعت ہے جو کامیاب ہو گی۔

یاد رہے یہ وہ دن تھے جب تحریک انصاف انتہائی غیر مقبول ہو چکی تھی اور اپنے ’وزن‘ پر گر رہی تھی مگر پھر آصف زرداری اور نواز شریف نے گرتی اس دیوار کو آئینی طریقے سے ہٹانا بہتر سمجھا۔جنرل باجوہ نے عدم اعتماد آنے پر صرف تحریک انصاف کو سہارا ہی نہیں دیا بلکہ کئی ایک جماعتوں سے خود رابطہ کر کے عمران خان کا ساتھ دینے کا کہا اور اب اس سلسلے میں چوہدری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی کا بیان ’ڈبل گیم‘ کی گواہی کے طور پر سامنے آ چکا ہے۔

عاصمہ شیرازی کے مطابق جنرل باجوہ نیوٹرل نہیں تھے بلکہ انکا وزن عمران خان کے پلڑے میں تھا اور اس کا ادراک پی ڈی ایم قیادت کو ہو چکا تھا۔ جب پنجاب کا معاملہ آیا تو جنرل باجوہ نے پرویز الٰہی کو نہ صرف پی ڈی ایم کے پاس جانے سے روکا بلکہ حکومت سازی میں مدد دے کر عثمان بُزدار کی تبدیلی کے دیرینہ مطالبے پر عمل درآمد بھی کروا دیا اور یوں پنجاب بظاہر محفوظ ہاتھوں میں تو آ گیا مگر تحریک انصاف غیر محفوظ ہو گئی۔ اب جبکہ جنرل باجوہ گمنامی کی زندگی گزارنے جا رہے ہیں تو حقیقت یہی ہے کہ گذشتہ چھ برس میں جس ’ڈاکٹرائن‘ نے ملکی معیشت، معاشرت اور سیاست کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اُسے کن لفظوں میں یاد کیا جائے گا؟

عاصمہ شیرازی کے بقول اب عمران خان اپنی غلطیاں آئے دن گنوا رہے ہیں تو ذرا دل بڑا کریں اور تسلیم کریں کہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی غلطیوں میں وہ نہ صرف شریک کار رہے بلکہ انھیں استعمال کرتے رہے اور استعمال ہوتے بھی رہے۔

مان لیں کہ جنرل پاشا سے جنرل فیض تک عسکری قیادت سے ملک فیض یاب ہوا یا نہیں، لیکن عمران خان ضرور فیض یاب ہوتے رہے۔ پچھتاوے اور افسوس کا یہ موسم نہ جانے کتنا طویل ہے مگر ابھی اس میں ایک اور باب کا اضافہ ہونے والا ہے۔

آہستہ آہستہ کہانی کے سب کرداروں کو منظر عام پر آنا ہے۔ پردہ ابھی گرا نہیں اور پردہ شاید ابھی گرے گا بھی نہیں۔ لہذا انتظار فرمائیے!!!

Related Articles

Back to top button