جنرل ظہیر نے پاک فوج کی عزت اور رتبہ کیسے نیلام کیا؟

معروف تحقیقاتی صحافی اعزاز سید نے کہا ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے اپنے عہدے کا غلط استعمال کرتے ہوئے پاک فوج کی عزت اور رتبہ نیلام کرنے کی کوشش کی، ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ جنرل ظہیر نے اگست 2014 میں عمران خان کے ذریعے نواز شریف کیخلاف دھرنا دلوایا تاکہ ان کی حکومت کو ختم کیا جا سکے۔ اعزاز سید نے کہا کہ اس سے پہلے مارچ اور اپریل 2014 میں بطور آئی ایس آئی چیف جنرل ظہیر الاسلام نے لندن میں عمران خان، طاہر القادری، اور قاف لیگ کے رہنمائوں سے خفیہ ملاقاتیں بھی کیں تا کہ اپنے منصوبے کو حتمی شکل دی جا سکے۔

اعزاز سید کے مطابق جنرل (ر) ظہیر نے لندن میں عمران خان اور معروف مذہبی سکالر ڈاکٹر طاہر القادری کو نواز شریف کی حکومت کے خلاف دھرنا دینے کے لیے قائل کیا تھا جو کہ سو دن سے زیادہ جاری رہا، جنرل (ر) ظہیر اسلام نے دھرنے کے دوران مالی اور انتظامی تعاون کے لیے بحریہ ٹائون کے سربراہ ملک ریاض اور موجودہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجہ تنویر الیاس کی ذمہ داری لگا رکھی تھی۔ اس دوران جنرل ظہیر کی جانب سے ملک ریاض اور سردار تنویر الیاس کا مالی تعاون پر شکریہ ادا کرنے کی ایک فون کال بھی ٹریس ہو گئی تھی۔ یہ ٹیلی فون کالز آئی بی کی جانب سے ریکارڈ کی گئی تھیں، تب کے آئی ایس آئی پنجاب کے سیکٹر کمانڈر نے بھی ملک ریاض ، راجہ تنویر الیاس کو فون کر کے مالی اور انتظامی معاونت پر شکریہ ادا کیا تھا، آئی بی کے پاس ان تمام فون کالز کا ریکارڈ اب بھی موجود ہے۔ اعزاز سید نے کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ تب لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام آئی ایس آئی کے سربراہ تھے اور آئین کے مطابق وزیراعظم کو جواب دہ تھے لیکن وہ انہی کی حکومت کے خلاف سازش کر رہے تھے۔

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ مکافات عمل کا شکار کیسے ہوئی؟

نواز شریف نے بھی کچھ عرصہ پہلے انکشاف کیا تھا کہ 2014 میں جب وہ وزیر اعظم تھے تو تب کے آئی ایس آئی سربراہ ظہیر الاسلام نے انہیں ایک شخص کے ذریعے استعفیٰ دینے کا پیغام بھیجا تھا جسے انہوں نے سختی سے رد کر دیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ پیغام لے کر جانے والا شخص بحریہ ٹاؤن کا مالک ملک ریاض تھا جواب بھی عمران کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہے۔

پاکستانی تاریخ کے متنازعہ اور طاقتور ترین آئی ایس آئی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کی حال ہی میں ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں وہ اعتراف کر رہے ہیں کہ عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کو آئی ایس آئی نے تیسری آپشن کے طور پر میدان میں اتارا تھا۔ راولپنڈی میں تحریک انصاف کے ایک امیدوار کے انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ پاکستانی عوام پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو کئی مرتبہ اقتدار میں لا لا کر تھک چکے تھے لہٰذا فوجی اسٹیبلشمنٹ نے تیسری آپشن آزمانے کا فیصلہ کیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ ظہیرالاسلام اپنے دور میں تب کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بھی زیادہ طاقتور تھے اور ان کی سیاسی تربیت لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے کی تھی۔ پاشا کے دور میں سینئر صحافی سلیم شہزاد کا قتل کیا گیا تھا جبکہ ظہیر الاسلام کے دور میں حامد میر کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ ظہیر الاسلام کے مبینہ حکم پر سینئر صحافی حامد میر کو کراچی میں 6 گولیاں ماری گئی تھیں لیکن وہ معجزاتی طور پر زندہ بچ گئے۔ نواز شریف حکومت کی جانب سے اس قاتلانہ حملے کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل عدالتی کمیشن کی رپورٹ آج دن تک سامنے نہیں آ پائی۔ ظہیر الاسلام 2012ء میں آئی ایس آئی کے سربراہ بنے تھے۔

Related Articles

Back to top button