کپتان کو گھر بھجوانے جانے کا پلان کتنا فول پروف ہے؟

وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تیاری میں مصروف اپوزیشن ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کا منصوبہ فول پروف ہے جو فروری میں ہی کامیابی سے ہمکنار ہو جائے گا۔ اپوزیشن ذرائع پرامید ہیں کہ یہ موو کامیاب ہوگی تاہم ابھی تک اس حوالے سے اتفاق نہیں ہو سکا کہ نیا وزیراعظم کچھ ماہ بعد اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کردے گا یا پھر قومی اسمبلی کی باقی ماندہ مدت پوری کی جائے گی؟
باخبر اپوزیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف زرداری کی لاہور یاترا کے بعد مسلم لیگ(ن) نے دیگر اپوزیشن جماعتوں کی تائید و حمایت سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف رواں ماہ ہی تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد مارچ یا مئی میں نہیں، بلکہ فروری میں ہی لائے جانے کا امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق ان ہاؤس تبدیلی کے لیے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے ہوم ورک کافی فائدہ تک مکمل کر لیا ہے اور اب حکومت کی اتحادی جماعتوں کو ساتھ ملانے کی کوششوں پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ لیگی قائد نوازشریف نے بھی پارٹی صدر شہباز شریف کو تحریک عدم اعتماد کے لئے اجازت دے دی ہے۔
ن لیگی ذرائع نے بتایا کہ شہباز شریف نے تحریک عدم اعتماد کامیاب کرانے کے لیے پلان اے اور پلان بی بنایا ہے۔ یہ فیصلہ دراصل شہباز کے حکومتی اتحادیوں اور اپوزیشن قائدین سے بیک ڈور رابطوں کے بعد کیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے شہباز شریف پی ڈی ایم سربراہی اجلاس سے قبل مولانا فضل الرحمٰن کو اعتماد میں لیں گے، اور حکومتی اتحادیوں اور پیپلز پارٹی سے ہونے والے رابطوں، حکومتی اتحادیوں اور پی ٹی آئی کے ناراض ارکان کی تعداد کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے اسی ماہ عدم اعتماد کی تجویز دیں گے، جب کہ پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں حتمی منظوری کے بعد شہباز شریف تحریک عدم اعتماد پر عملی اقدامات کا آغاز کریں گے۔
اپوزیشن جماعتیں ایک بار پھر عمران خان حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے سرگرم ہیں اور اس دفعہ ان کا اصرار ہے کہ وہ کامیابی سے ہمکنار ہوں گی۔ ایک جانب سابق صدر آصف علی زرداری نے لاہور میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں تو دوسری جانب لندن میں مقیم سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے عمران خان حکومت کی جلد سے جلد رُخصتی کے لیے تمام آئینی راستے اختیار کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
چند روز پہلے آصف علی زرداری نے حکومت کی اہم اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کی تھی جب کہ متحدہ قومی موومنٹ نے بھی تمام آپشنز کھلے رکھنے کا عندیہ دیتے ہوئے لاہور پہنچ کر مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف سے ملاقات کی ہے۔ اس سے قبل آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے ملاقات کر کے حکومت کے خلاف ایک بار پھر مل کر چلنے پر اتفاق کیا تھا۔
تاہم تیزی سے بدلتی سیاسی صورتحال میں مبصرین کا کہنا ہے کہ کپتان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے جلد از جلد فارغ کرنے پر تو اپوزیشن اتحاد نے اتفاق کر کیا ہے تاہم اس حوالے سے اختلاف ہے کہ حکومت کی تبدیلی کے بعد حکومت مدت پوری کرے گی یا تین سے چھ ماہ میں نئے انتخابات کروا دیے جائیں گے۔
فیصل واوڈا کی فراغت عمران کے لیے بڑا جھٹکا کیوں ہے؟
سوال یہ بھی ہے کہ سیاسی تبدیلی کے بعد اگلا وزیراعظم کون ہوگا؟ مبصرین موجودہ سیاسی حالات میں حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں اور اپوزیشن پارٹیوں کی حالیہ غیر متوقع ملاقاتوں کو اہم قرار دے رہے ہیں تاہم یہ سوال بھی اٹھاتے نظر آتے ہیں کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو کیا قومی اسمبلی کو مدت پوری کرنے دی جائے گی یا نیا وزیراعظم چند ماہ بعد اسمبلیاں توڑ کر نئے عام انتخابات کا اعلان کر دے گا؟
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق گزشتہ ساڑھے تین برس پر نظر دوڑائی جائے تو حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم کے علاوہ کئی قومی معاملات پر اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اعتماد کا فقدان نظر آیا۔ سینئر تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کے حکومت کے اتحادیوں سے رابطوں کے باوجود اتحادی جماعتیں کسی بغاوت کے موڈ میں نہیں ہیں۔
شامی کا کہنا تھا کہ اپوزیشن اپنے طور پر حکومت کو نہیں گرا سکے گی اس کے لیے انہیں حکومتی میں شامل اتحادیوں کے ووٹوں کی ضرورت ہو گی یا حکمراں جماعت کے اندر کسی گروپ کی ضرورت ہو گی۔ خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف، ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق)، جے ڈی اے کے ارکان پر مشتمل حکمراں اتحاد کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے مقابلے میں چند ووٹوں کی ہی برتری حاصل ہے۔اگر مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم حکومت سے الگ ہو جائیں تو حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی پر عوامی دباؤ ہے اور اس وقت ان کا مشترکہ مفاد یہ ہے کہ وہ اس دباؤ سے نکلیں۔ حالاں کہ بار بار دونوں جماعتوں کے رہنما یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے مقابلے میں الیکشن بھی لڑیں گے۔ شامی کے بقول نواز شریف کے قریبی حلقے یہی کہتے ہیں کہ نواز شریف فوری الیکشن کے حامی ہیں۔
اُن کے بقول نواز شریف چاہتے ہیں کہ اگر عمران خان کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک کامیاب ہوتی ہے تو فوری طور پر نئے انتخابات کا اعلان کیا جائے۔ البتہ آصف زرداری چاہتے ہیں کہ کچھ وقفہ لے کر انتخابات کروائے جائیں۔ لیکن ایسی صورت میں سوال یہ ہوگا کہ موجودہ حکومت کو چھوڑ کر اپوزیشن کا ساتھ دینے کی صورت میں مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کے ہاتھ کیا آئے گا؟ لہذٰا مستقبل میں کسی اُمید یا یقین دہانی پر ہی وہ اپوزیشن کا ساتھ دیں گے جس کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
دوسری جانب سینئر تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ وہ 100 فی صد یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گی، لیکن یہ بات طے ہے کہ حکومت کے لیے یہ مشکل وقت ہے۔ بقول بخاری اپوزیشن جماعتوں کا خیال ہے کہ اب عمران خان کی حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل نہیں رہی۔ اُن کے بقول اپوزیشن جماعتوں کی حالیہ ملاقاتوں کا مقصد لانگ مارچ کے حوالے سے متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے 27 فروری کو جب کہ پی ڈی ایم نے 23 مارچ کو حکومت مخالف لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔ سلیم بخاری کے مطابق شہباز شریف سے ملاقات میں آصف زرداری نے (ن) لیگ پر زور دیا کہ وہ پیپلزپارٹی کے لانگ مارچ میں شرکت کرے۔ جب کہ اس پر بھی بات ہوئی کہ 23 مارچ کو پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کے لانگ مارچ میں شریک ہو۔ سلیم بخاری نے دعویٰ کیا کہ نواز شریف کے بھی جو مقتدر حلقوں سے رابطے ہوئے اس میں اُنہوں نے واضح کیا تھا کہ وہ شفاف اور آزادانہ نئے انتخابات چاہتے ہیں تاکہ کسی بھی جیتنے والی جماعت کو پانچ سال کا مینڈیٹ ملے۔
اس ضمن میں سنیئر تجزیہ کار راشد رحمان یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والی حالیہ ملاقاتوں میں مولانا فضل الرحمٰن کہیں نظر نہیں آتے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد نہیں ہے۔ اُن کے بقول پہلے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان غلط فہمیاں تھیں لیکن اب یہ معاملہ تین طرفہ ہو گیا ہے اور مولانا فضل الرحمٰن بھی ان جماعتوں سے دُور نظر آتے ہیں۔
لہذٰا ان حالات میں ان ہاؤس تبدیلی، لانگ مارچ سے زیادہ اُمیدیں وابستہ کرنا قبل از وقت ہے کیوں کہ کنفیوژن بہت زیادہ ہے۔ راشد رحمان کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) فوری طور پر آزاد اور منصفانہ انتخابات چاہتی ہے جس میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔
اُن کے بقول خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے پتا چلتا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے بھی موجودہ حکومت سے کچھ دُوری اختیار کی ہے۔ خیال رہے کہ خیبر پختونخوا میں پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں حکمراں جماعت تحریکِ انصاف کو شکست ہوئی تھی جب کہ جمعیت علماء اسلام (ف) نے کامیابی حاصل کی تھی۔
راشد رحمان کہتے ہیں کہ یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ عام انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ مداخلت نہیں کرے گی کیوں کہ یہ ایک ملک گیر الیکشن ہو گا اور ملک کے سیاسی منظر نامے کے خدوحال اسی لیکشن کے ذریعے واضح ہوں گے۔