حمزہ شہباز پرویز الٰہی سے کیسے گن گن کر بدلہ لیں گے؟

سپریم کورٹ آف پاکستان کے 3 رکنی بینچ کی جانب سے حمزہ شہباز کی جگہ وزیر اعلیٰ بنائے جانے کے بعد اب چودھری پرویز الٰہی بھی ان ہی مشکلات کا شکار ہونے جا رہے ہیں جو انہوں نے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کے لیے کھڑی کی تھیں۔ وزارت عالی سنبھالنے کے ایک ہفتہ بعد بھی پرویز الٰہی اپنی صوبائی کابینہ مکمل نہیں کر پائے جس کی بڑی وجہ اتحادی جماعتوں کے باہمی اختلافات اور مطالبات ہیں۔ لیکن اگر پرویز اپنی کابینہ مکمل کر بھی لیتے ہیں تو ان کے لیے اگلا مسئلہ اپنے وزرا کو نواز لیگ سے وابستہ گورنر پنجاب بلیغ الرحمان سے حلف دلوانے کا ہو گا۔ یاد رہے کہ ماضی قریب میں تحریک انصاف سے وابستہ عمرانڈو گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے اپنے کپتان کی ہدایت پر حمزہ شہباز کی کابینہ کے وزراء کو حلف دینے سے انکار کر دیا تھا لہذا ان کی کابینہ کئی ہفتے لٹکی رہی تھی۔ بالآخر حمزہ کی کابینہ نے تب حلف اٹھایا تھا جب وفاقی حکومت عمر سرفراز چیمہ کو برطرف کر کے بلیغ الرحمان کو نیا گورنر پنجاب لگایا۔ نون لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ پرویز الٰہی سے بھی گن گن کے بدلے لئے جائیں گے اور جیسے کو تیسا والا اصول اپنایا جائے گا۔

دوسری جانب پرویز الٰہی کو حکومت سنبھالے ایک ہفتہ ہو چکا ہے اور ابھی تک وہ اپنی کابینہ نہیں بنا سکے ہیں۔ ایسے میں کئی طرف سے چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں کہ کابینہ کی تعداد کے حوالے سے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور وزیراعلٰی پرویز الٰہی کے درمیان بات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ رہی۔ تحریک انصاف کے ایک سابق صوبائی وزیر نے بتایا کہ تحریک انصاف کے سربراہ اور نئے وزیر اعلیٰ پنجاب کے مابین کابینہ کی تشکیل پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔انکاکہنا تھا کہ عمران پنجاب کی کابینہ چھوٹی رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بڑی کابینہ نہیں ہونی چاہیے جبکہ پرویز الٰہی چاہتے ہیں کہ وہ ایک بھرپور کابینہ بنائیں جس میں ان کی جماعت کی نمائندگی بھی ہو۔ پرویز الٰہی کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی جماعت کے دس رکن پنجاب اسمبلی کو بھی رام کرنا ہے جنہوں نے چوہدری شجاعت حسین کی ہدایت کے باوجود حمزہ شہباز کی بجائے انھیں ووٹ دیا تھا۔ لیکن اطلاع یہ ہے کہ عمران خان نے پرویز الٰہی پر واضح کردیا ہے کہ 10 سیٹوں کے ساتھ پنجاب کی وزارت اعلیٰ حاصل کرنے کے بعد قاف لیگ کا کوٹہ پورا ہو چکا ہے اور اب ان کی جماعت کا کوئی رکن اسمبلی وزیر نہیں بن سکتا۔ ایسے میں پرویز الٰہی کا یہ موقف ہے کہ اگر ان کا ساتھ دینے والے قاف لیگی اراکین اسمبلی کو وزارتیں نہ ملی تو وہ ان کا ساتھ چھوڑ دیں گے جس سے حکومت گرنے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔

درست ٹیم کا انتخاب نہ کرنا عمران کی بڑی غلطی تھی

چنانچہ عمران خان اور پرویز الٰہی کے مابین ابھی مشاورت جاری ہے اور اسی وجہ سے پنجاب کی کابینہ مکمل نہیں ہو پائی۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ پنجاب کی کابینہ میں 20 سے زائد وزرا نہ ہوں۔ اس کے علاوہ انہوں نے یاسمین راشد، مراد راس، اور میاں محمود الرشید کو وہی وزارتیں دینے کی ہدایت کی ہے جو پہلے بھی ان کے پاس تھیں۔ دوسری جانب شاہ محمود قریشی بھی عمران خان اور پرویز الٰہی دونوں سے ناراض ہیں کیونکہ وہ اپنے بیٹے کو اسپیکر یا سینئر وزیر بنوانا چاہتے تھے لیکن ان کی خواہش پوری نہیں ہو پائی۔ ایسے میں اس بات کا امکان ہے کہ ابتدائی طور پر 20 رکنی کابینہ ہی بنا لی جائے اور بعد میں مزید وزرا کو شامل کر لیا جائے لیکن ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔

لیکن سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلٰی پنجاب پرویز الٰہی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اس کابینہ کو حلف دلوانا ہوگا کیونکہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ان کا حلف تو صدر پاکستان نے لیا تھا، البتہ کابینہ کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ خاموش ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن نے وہی رویہ اپنانے کا عندیہ دے رکھا ہے جو تحریک انصاف کے نامزد گورنر عمر سرفراز چیمہ نے حمزہ شہباز اور ان کی کابینہ کے حوالے سے اپنایا تھا۔ خیال رہے کہ حمزہ شہباز تقریباً تین ماہ پنجاب کے وزیراعلٰی رہے تاہم پہلا ماہ انہوں نے کابینہ کے بغیر گزارا۔ اس کے بعد وہ صرف آٹھ وزرا کے ساتھ حکومت چلاتے رہے۔ البتہ دوسری مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے بعد انہیں وزیراعلٰی پنجاب بنایا گیا تو انہوں نے 50 سے زائد وزرا اور مشیر رکھے لیکن ان کی حکومت صرف دو دن ہی چل پائی تھی کہ سپریم کورٹ نے پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب قرار دے دیا۔

Related Articles

Back to top button