پاکستانی عوام IMF کا بجٹ کس طرح بھگتیں گے؟

کپتان حکومت نے آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر قرض لینے کی خاطر ضمنی بل 2021 کے ذریعے نہ صرف عوام پر نئے ٹیکس عائد کردیے ہیں بلکہ انہیں دی جانے والی 345 ارب روپے کی سبسڈی بھی ختم کردی ہے جس سے عام آدمی کی زندگی بری طرح متاثر ہو گی، تاہم وزیر خزانہ شوکت ترین مسلسل یہ بھونڈا دعویٰ کر رہے ہیں کہ 343 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں میں سے 280 ارب روپے دہندگان کو واپس کر دیے جائیں گے، جب کہ حکومت کے پاس صرف 71 ارب روپے رہیں گے اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔

خیال رہے کہ قومی اسمبلی نے 13 جنوری کو پانچ گھنٹے کی کارروائی کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی شدید مخالفت کے باوجود حکومتی مالیاتی ضمنی بل 2021 منظور کر لیا جس کے بعد مہنگائی کا ایک نیا طوفان آئے گا۔ زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومتی اتحادی ایم کیو ایم اور قاف لیگ زبانی کلامی تو بل کی مخالفت کرتی رہیں لیکن جب ووٹ دینے کا وقت آیا تو وہ عوام دشمن کپتان حکومت کے ساتھ کھڑی ہوگئیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ منی بجٹ اور سٹیٹ بنک کو خود مختاری دینے کے لیے قانونی ترمیم کی منظوری کے بعد آئی ایم ایف سے طے پانے والے معاہدے کے مطابق ایک ارب ڈالر سے کچھ زائد کی قسط حاصل کرنے کی راہ ہموار کرلی گئی ہے۔ اسکا کہنا ہے کہ پاکستان معاشی اور سیاسی طور سے ایک ایسے مشکل دوراہے پر کھڑا ہے جس میں ان اقدامات کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ تاہم افتراق و انتشار کے جس ماحول میں یہ بل منظور کئے گئے ہیں، اس سے ملکی معیشت میں نکھار آنے اور مسائل کی شدت میں کمی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ تاہم مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام کی چیخوں میں مزید اضافہ ضرور ہو جائے گا۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ بجٹ عمران حکومت نے تیار نہیں کیا لیکن وہ اس کا ’کریڈٹ‘ لینے یا اسکا بوجھ اٹھانے پر مجبور تھی۔ خیال رہے کہ اس وقت عمران خان آئی ایم ایف کی نوکری کرنے پر مجبور ہیں حالانکہ اقتدار میں آنے سے پہلے وہ کہا کرتے تھے کہ حکومت میں آ کر اگر انہیں آئی ایم ایف سے قرض لینا پڑا تو وہ خود کشی کرنے کو ترجیح دیں گے۔ تاہم اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے اپنے دعوے سے یوٹرن لے لیا اور اب عوام کو خودکشی کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کی نافذ کردہ شرائط کو پورا کرنے کے لئے تیار کیا گیا تھا، حتی کہ حکومت کو روٹی پر ٹیکس میں کمی بیشی کرنے کی ’اجازت‘ حاصل کرنے کے لئے بھی واشنگٹن میں عالمی مالیاتی فنڈ کے ہیڈ آفس سے رجوع کرنا پڑ رہا ہے۔ اس اجازت کے بعد ہی حکومت صرف بعض آؤٹ لیٹس پر فروخت کی جانے والی روٹی اور نان پر نئے محصول سے چھوٹ دے پائی ہے، ورنہ معیشت کو ’ریگولرائز‘ کرنے کے دعوے دار وزیر خزانہ کو تو ضمنی بجٹ تجاویز میں زیر زبر کی ترمیم کا اختیار بھی حاصل نہیں تھا۔ اس لئے اس منی بجٹ کو پاکستان کو آئی ایم ایف کا بجٹ کہا جا رہا ہے جسے قومی اسمبلی نے منظور کیا ہے۔

13 جنوری کو سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان، پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو بھی ایوان میں موجود تھے، جب کہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف غیر حاضر رہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس بجٹ کا منظور ہوجانا پہلے سے طے تھا کیوں کہ اسے فوجی اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد بھی حاصل تھی اور شاید اسی لیے بڑی بڑی بڑھکیں مارنے والے شہباز شریف اپنے دعوے کے مطابق قومی اسمبلی میں اس کی بھر پور مخالفت کرنے کی بجائے غیر حاضر پائے گئے۔ حزب اختلاف نے ضمنی مالیاتی بل پر ایوان میں بحث شروع کیے جانے سے پہلے عوامی رائے حاصل کرنے سے متعلق تجویز پیش کی، جسے 150 کے مقابلے میں 168 ووٹوں سے رد کر دیا گیا۔

کیا جسٹس اطہر من اللہ نئی تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں؟

تاہم کچھ دیر بعد ہونے والی ایک دوسری گنتی میں حزب اختلاف کے اراکین کی تعداد کم ہو کر 146 اور حکومتی ایم این ایز کم ہو کر 163 ہو گئے، یاد رہے کہ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے 30 دسمبر کو قومی اسمبلی میں ضمنی مالیاتی بل 2021 پیش کیا تھا، جس کے ذریعے نئے ٹیکسز لگانے اور ٹیکسوں میں چھوٹ ختم کرنے کی تجاویز تھیں، جو حکومت کی سالانہ آمدن میں 350 ارب روپے کے اضافے کا باعث بنے گا۔

اس بل میں ڈبل روٹی، بیکری کی اشیا، بچوں کے دودھ، درآمد شدہ گاڑیوں اور دوسری کئی اشیا پر ٹیکس لگایا گیا تھا یا ٹیکس کی چھوٹ واپس لی گئی تھی۔ نئے مالیاتی بل کے تحت چھوٹی دکانوں پر روٹی، چپاتی، شیرمال، سویاں، نان، بن اور رس پر ٹیکس ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم بڑی دکانوں، ریستورانوں، فوڈ چینز اور مٹھائی کی دکانوں پر ان اشیا کی فروخت پر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔

Related Articles

Back to top button