مشرف پاکستان واپس آیا تو موت حراست میں ہی ہو گی

باخبر حکومتی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ آئین شکنی کے جرم میں سزائے موت پا کر مفرور ہونے والے سابق ملٹری ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کو زندہ پاکستان واپس لانے کی صورت میں ایئرپورٹ سے سیدھا ہسپتال منتقل کردیا جائے گا اور قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کے لئے ہسپتال کو سب جیل قرار دے دیا جائے گا۔ یوں ایک طرح سے آئین شکن مشرف کی موت قانون کی حراست میں ہو گی اور ایک نئی تاریخ رقم ہو جائے گی۔

صادق اور امین کپتان کے اثاثوں میں اضافہ کیسے ہوا؟

مشرف کی پاکستان واپسی کی تیاریوں بارے اطلاعات کئی روز سے آ رہی ہیں مگر پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار اور نواز شریف کے بیانات نے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر خاصی ہلچل مچا دی ہے جہاں اس وقت ‘ووٹ کو عزت دو’ اور ‘بوٹ کو عزت دو’ کے دو ہیش ٹیگ مسلسل ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے ان دونوں ہیش ٹیگز کی وجہ سابق وزیراعظم کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے مشرف کی با عزت وطن واپسی کی بات کی ہے اور واضح کیا ہے کہ ان کی سابق جرنیل کے ساتھ کوئی ذاتی پرخاش نہیں۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف دو مرتبہ آئین شکنی کرنے کی وجہ سے ملک اور قوم کا ولن ہے اور ویسے بھی عدالت سے سزائے موت پانے والے مفرور مجرم کو معافی دینے کا اختیار نواز شریف یا کسی اور فرد واحد کے پاس نہیں۔

مشرف کی وطن واپسی کے حوالے سے بحث کا آغاز تب ہوا جب فوجی ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ دبئی میں پرویز مشرف کی صحت کافی خراب اور فوج کا موقف ہے کہ انھیں واپس پاکستان آ جانا چاہیے جس کے لیے خاندان سے رابطہ کیا گیا ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ یہ فیصلہ مشرف کے خاندان اور ڈاکٹروں کی اجازت سے مشروط ہے۔ اس بیان سے کچھ دیر بعد نواز شریف نے ٹوئٹر پر بیان دیا کہ ان کی مشرف سے کوئی ذاتی عناد یا دشمنی نہیں ہے اور اگر وہ پاکستان واپس آنا چاہیں تو حکومت سہولت فراہم کرے۔ ان کا یہ بیان سامنے آنا تھا کہ تعریف کے ساتھ ساتھ تنقید کا بازار گرم ہو گیا۔ ان کی بیٹی مریم نواز نے اس بیان کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’یہ ہیں نواز شریف‘ مگر اکثریتی صحافی، سماجی کارکنان اور عام صارف اس پیغام پر ناخوش دکھائی دیے۔ انہوں نے اسے نواز شریف کے ووٹ کی عزت دو کے بیانیے کا جنازہ نکالنے کے مترادف قرار دیا۔

خیال رہے کہ عدالت سے اشتہاری قرار پانے والا مشرف اس وقت دبئی میں زیر علاج ہے۔ گذشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر اسکی وفات کی افواہیں گردش کرنے لگی تھیں۔ لیکن اسکے خاندان نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ پرویز مشرف ایک پیچیدہ بیماری سے متاثرہ ہیں اور ان کی صحتیابی ممکن نہیں کیونکہ اس بیماری میں اعضا ناکارہ ہو رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق مشرف کے اہلخانہ نے ملک کی عسکری قیادت سے رابطے کیے اور اب اسے واپس لانے کے لیے ایئر ایمبولینس بھی تیار کر لی گئی ہے۔ فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے تصدیق کی ہے کہ ان کے خاندان سے رابطہ کیا گیا ہے، اور یہ کہ فوج اور اعلیٰ فوجی قیادت چاہتی ہے کہ مشرف پاکستان واپس آئیں۔ ادھر 15 جون کو سینیٹ کے اجلاس میں بھی مشرف کی واپسی کا معاملہ زیر بحث آیا جس دوران نکتہ اعتراض پرسینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ ’مشرف کو اگر لایا جاتا ہے تو پھر جیلوں کے دروازے کھول دیں، عدالتوں کو بند کردیں، اگر عدالتوں کے فیصلے نہیں ماننے اور آئین شکنوں کو تحفظ دینا ہے تو پھر عدالتوں اور جیلوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ اجلاس میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے تسلیم کیا کہ ’مشرف کا فیصلہ ہم نہیں کریں گے، یہ فیصلہ بھی وہی کریں گے جنہوں نے مشرف کو باہر بھجوایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جب مشرف باہر گئے تھے تو کیا آپ روک سکے تھے۔ جب وہ واپس آئے گا تو کیا آپ روک سکیں گے؟گیلا نی نے کہا کہ مجھے پرویز مشرف کی ملک واپس آنے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن سب کے ساتھ سلوک ایک جیسا ہونا چاہیے۔

دوسری جانب باخبر حکومتی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ حکومت اور فوجی قیادت کے مابین مشرف کو وطن واپس آنے کی اجازت دینے پر اتفاق ہو چکا ہے جس کے بعد ہی نواز شریف نے بھی ٹویٹ کا پنگا لیا ہے حالانکہ اس پر خاموشی بھی اختیار کی جا سکتی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کیونکہ مشرف آئین شکنی کا مجرم قرار پا چکا ہے اور وطن واپسی پر قانون کے مطابق اس کی گرفتاری لازمی ہے لہذا اسے ایئرپورٹ سے ہی ہسپتال منتقل کر دیا جائے گا اور پھر ہسپتال کو سب جیل قرار دے دیا جائے گا۔ یوں حکومت کو بھی فیس سیونگ مل جائے گی۔ خیال رہے کہ اس سے قبل مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی ٹوئٹر پر پیغام میں کہا تھا کہ ’پرویز مشرف کی خراب صحت کے پیش نظر انھیں وطن واپس آنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ ماضی کے واقعات کو اس سلسلے میں مانع نہیں ہونا چاہیے۔‘ تاہم سوشل میڈیا صارفین نے خواجہ آصف کا رگڑا نکالتے ہوئے یاد دلایا تھا کہ موصوف کے والد خواجہ محمد صفدر بھی ماضی میں جنرل ضیاء الحق کے ساتھی رہے ہیں۔ تاہم مشرف کے معاملے پر آصف زرداری اور بلاول بھٹو کی جانب سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی ہے جس کی بنیادی وجہ شاید یہ ہے کہ سابق ملٹری ڈکٹیٹر پر محترمہ کے قتل کی سازش کرنے کا الزام ہے۔

دودری جانب مسلم لیگ ن برسوں مشرف کو سخت تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہے۔ سال 1999 میں اقتدار پر پرویز مشرف کے قبضے کو بنیاد بنا کر تب سے اب تک ان کی سیاست اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کے گرد گھومتی رہی ہے۔ تو یہاں یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ ایسے بیانات اور اقدامات سے خود مسلم لیگ ن کے بیانیے اور سیاست کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے؟

اسی بارے میں مسلم لیگ ن کے ایک سینئر رہنما نے نام نہ لکھنے کی شرط پر بتایا کہ وہ اس سارے معاملے پر کھل کر اپنی رائے اس وقت دیں گے جب مشرف پاکستان واپس آ جائے گا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ملک میں یہ روایت ہی نہیں ہونی چاہیے کہ کسی سیاسی مخالف کو وطن واپس ہی نہ آنے دیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ ریاست کو یہ حق نہیں دے سکتے کہ وہ کسی شہری کو مجبور کرے کہ وہ ملک میں داخل نہ ہو۔

وہ کہتے ہیں ’پاکستان کی سیاست میں غیر جمہوری، غیر انسانی اور غیر اخلاقی روایت رہی ہے کہ اپنے سیاسی مخالفین کو ملک سے باہر رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ صدر ایوب خان نے یہ روایت شروع کی اور پھر اس کے بعد دیگر ڈکٹیٹرز اس روایت کو استعمال کرتے رہے ہیں۔ اور آج بھی نواز شریف ملک سے باہر ہیں۔ میرے خیال میں یہ روایت ختم ہونی چاہیے کہ کوئی اپنے ملک میں آنا چاہتا ہے تو اس کو آنے دیا جائے۔‘

اس سوال پر کہ ماضی میں مشرف کو پاکستان سے بھیجنے والے بھی تو خود نواز شریف ہی تھے، کیا انھوں نے ایسا فوج کے دبائومیں کیا؟ ان کا کہنا تھا کہ ریاستی ادارے بھی سیاسی مخالفین کو ملک سے باہر رہنے پر مجبور کرتے ہیں اور اپنے ادارے سے منسلک افراد کو قانونی کارروائی سے بچانے کے لیے ملک سے باہر بھجوانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ ان کے خیال میں پرویز مشرف سے متعلق کیسز میں قوم ایک نکتے پر اکٹھی نہیں ہوئی تھی ’البتہ نواز شریف کو ان کے خلاف مقدمات چلانے پر انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا اور تنہا کر دیا گیا۔ اور اس پر نہ کسی نے آواز اٹھائی اور نہ ہی مخالفت کی۔ قوم جب آئین توڑنے والے کو دشمن سمجھے گی تب ہی ٹھیک ہو گا ورنہ جو ایسا کرنے کی کوشش کرے گا اس کی عزت و آبرو ختم ہو گی۔‘

دوسری جانب تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن اپنی اصلیت کی طرف واپس جانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ’یہ جنرل ضیا الحق کی جماعت تھی اور وہیں جا رہی ہے۔ کچھ لوگ انھیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت کے طور پر پیش کرنا چاہتے تھے مگر ہم نے ہمیشہ کہا کہ ایسا نہیں، مسلم لیگ ن ڈیل کرنے والی پارٹی ہے۔ جب بھی موقع ملتا ہے وہ ڈیل کرتے ہیں۔‘ اس سوال پر کہ اس قسم کے بیانات مسلم لیگ ن اور ان کے بیانیے کو کتنا نقصان پہنچا سکتے ہیں، فواد چوہدری نے کہا کہ ‘مسلم لیگ ن اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ حکومت بنانے کا اختیار ووٹر کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ طاقت کا مرکز کچھ اور ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور الیکٹیبلز پر فوکس کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب نواز شریف نے اس بیان کے ذریعے پیغام رسانی کی ہے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور کس طرف ہیں۔ مسلم لیگ ن عوامی جماعت تو نہیں تھی، اور ان کے لیے عوام میں تاثر کوئی معنی نہیں رکھتا۔ وہ اب بھی روایتی سیاست کرتے ہیں۔‘

Related Articles

Back to top button