عمران کی فیصلہ سازی کی صلاحیت پر سوالات کھڑے ہو گئے

اپنے ہی ہاتھوں دو صوبائی اسمبلیاں توڑنے اور پھر خود پر قومی اسمبلی کے دروازے بند کروانے کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے حسب عادت ایک بڑا یوٹرن لے کر ایوان میں واپس جانے کی کوشش تب ناکام ہو گئی جب سپیکر راجہ پرویز اشرف نے پی ٹی آئی کے بچے کھچے 43 اراکین اسمبلی کے استعفے بھی قبول کر لیے۔ پہلے اسمبلی چھوڑنے اور پھر ایوان میں واپس جا کر اپنا لیڈر آف اپوزیشن بنوانے کی ناکام کوشش نے کپتان کی فیصلہ سازی کی صلاحیت پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ پارلیمنٹ چھوڑنے اور صوبائی اسمبلیاں توڑنے سے قبل خان صاحب کے خیرخواہوں نے انہیں مسلسل منفی ممکنہ سیاسی نتائج سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تاہم وقتی عوامی مقبولیت حاصل کرنے کی خواہش فرد واحد کی خواہش کی بھینٹ چڑھ گئی۔
بی بی سی کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سینئر اینکر پرسن اور صحافی عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ اقتدار سے برطرفی کے بعد حکومت کو فوری الیکشن پر مجبور کرنے کے لیے تحریک چلانے والے عمران خان بظاہر اپنے تمام سیاسی پتے اور حربے آزما چُکے ہیں اور ایک بار پھر سڑکوں پر آنے کی تیاری میں ہیں جبکہ معیشت کسی طور سیاسی عدم استحکام کی متحمل نہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ سیاسی اُفق پر چھائی دُھند دو اسمبلیوں کے الیکشن سے چھٹ پائے گی یا عام انتخابات کے انعقاد تک بے یقینی کو بڑھاوا دے گی؟ عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ ہاں، نہیں، کیوں، کیسے اور پھر اگر مگر۔۔۔ پاکستان کے موجودہ حالات چونکہ چنانچہ کی لایعنی بحث میں اُلجھ گئے ہیں۔ بند گلی ہے، کوئی راستہ ہو تو منزل کا تعین ممکن ہو، لیکن حالات یہ ہیں کہ دماغ خوف اور خواہش کے مابین مکالمے میں اُلجھ گیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ موجودہ حالات غیر متوقع، ناگزیر اور غیر معمولی اقدامات کی نشاندہی کر رہے ہیں جبکہ جمہوری اور آئینی تقاضے کسی صورت کسی ایڈونچر کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ انکا کہنا ہے کہ میری خواہش ہے کہ معیشت کے لیے ضروری سیاسی استحکام ملے، کیونکہ خوف ہے کہ انتشار بڑھے گا، لہذا خواہش ہے کہ بحران کا حل ڈھونڈا جائے، لیکن خوف ہے کہ انتخابات بھی اس کا حل نہ ہوئے تو کیا ہو گا۔
عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ خان صاحب یوں تو مقبول ہیں مگر مقبولیت کے گراف کا پیمانہ صرف اُن کے ہاتھ ہے، اس پیمانے کی ابتداء سادہ اور انتہا دو تہائی اکثریت ہے لہذا اس سے کم پر نہ آئین کام آئے گا اور نہ ہی قانون۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ یہ تاثر مضبوط ہوتا چلا جا رہا ہے کہ موجودہ سیاسی جمود کا حل جس ڈائیلاگ میں ہے اُس پر ایک فریق یعنی تحریک انصاف یقین نہیں رکھتی۔ سنگین معاشی بحران میں ایک طرف آئی ایم ایف کی سخت شرائط ہیں تو دوسری جانب ڈیڈ لاک، ایک جانب عوام کا اضطراب ہے تو دوسری جانب ردعمل کا خوف، عمران خان دوبارہ سڑکوں پر نکلنے کو تیار ہیں، باوجود اس کے کہ گزشتہ تحریک میں انہیں عوامی پذیرائی حاصل نہیں رہی، تاہم اب کی بار موصوف معاشی ہیجان کو سیاسی مظاہرے میں بدلنے کی کوشش پھر سے کریں گے تاکہ اپنے فوری انتخابات کے مطالبے کو تسلیم کروا سکیں۔ ان کو یہ بھی ڈر ہے کہ شاید اب انکی جانب سے توڑی گئی دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں بھی تاخیر ہو جائے۔
لیکن اہم ترین سوال یہ ہے کہ انتخابات کے لیے مناسب سیاسی ماحول کون بنائے گا؟ چیف الیکشن کمشنر کے متعین کردہ وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کو چیلنج کرنے والی تحریک انصاف انتخابات کے نتائج کو کیسے تسلیم کرے گی؟ استعفے دے کر واپس لینے والی جماعت قومی سطح پر راجہ ریاض کے ساتھ مشاورت سے لگائے نگران سیٹ کو کیسے مانے گی؟
اگر نگران وزیراعظم بھی الیکشن کمیشن نے لگایا تو کیا تحریک انصاف تسلیم کر لے گی اور اگر تسلیم کر بھی لیا تو ’خواہش‘ سے کم کامیابی کی صورت نتائج تسلیم کرے گی یا پھر 2014 کی صورت دوبارہ سڑکوں پر ہو گی؟ زمینی حقائق کی ایک جھلک بہر حال سندھ بلدیاتی انتخابات میں دکھائی دی جہاں 2018 میں کلین سویپ کرنے والی جماعت اب تیسرے نمبر پر ہے۔ بہر حال آئندہ انتخابات سے پہلے نہ تو سیاسی پارہ کم ہو گا اور نہ ہی معاشی دھارا درست اور وجود برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ریاست کس حد تک اس اندرونی تقسیم سے نمٹ پائے گی یہ ایک الگ سوال ہے۔ ایسے میں عاصمہ شیرازی سوال کرتی ہیں کہ پھر حل کیا ہے اور کس کے پاس ہے؟ میں نہ مانوں کی ضد اور رَٹ آئین کی رِٹ چیلنج کر رہی ہے اور جو راستہ بچتا ہے وہ خود بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ خوف ہے کہ نظام بند گلی میں داخل نہ ہو جائے؟ انتخابات ہوئے تو بحران، نہ ہوئے تو بحران، معاشی فیصلے ہوئے تو بحران مگر نہ ہوئے تو سنگین بحران جس کی ایک جھلک بجلی کے بریک ڈاؤن کی صورت دیکھ لی ہے، عوام سخت فیصلے قبول کر سکتے ہیں مگر تیل، بجلی اور گیس کے بریک ڈاؤن کسی طور تسلیم نہیں کر سکتے۔ خوف اور خواہش کے اس ڈائیلاگ میں یہ حقیقت اٹل ہے کہ کوئی بھی غیر آئینی حل بحران ختم نہیں کر سکے گا جبکہ وسیع ہوتی خلیج غیر معمولی حالات کی نشاندہی کر رہی ہے۔ لیکن میری خواہش یہی ہے کہ جمہوریت جیسی بھی ہے، چلتی رہے۔
غلط سیاسی فیصلوں نے عمران کو منہ کے بل کیسے گرایا؟