عمران کے الیکشن کمیشن پر حملوں کا اصل مقصد کیا ہے؟

پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کا ایک جھٹکے سے دھڑن تختہ کرنے کے بعد عمران خان ایک نئی لڑائی شروع کر چکے ہیں اور اس بار ان کا مدِمقابل کوئی سیاستدان یا جماعت نہیں، بلکہ ایک بار پھر الیکشن کمیشن آف پاکستان ہے، جو کہ الیکشن کروانے کا ذمہ دار ہے۔ عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ اسی ادارے اور ادارے میں کام کرنے والے اہلکاروں پر اس لئے خرچ کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی منتخب حکومت پانچ سال کی آئینی مدت بخیروخوبی پوری کر لے یا یہ کہ آئینی مدت پوری کرنے سے پہلے ہی کرسی چِھن جائے تو آئین کے مطابق الیکشن کمیشن اپنا کردار ادا کرے اور طے شدہ اصول وضوابط کے تحت الیکشن کا انعقاد کروائے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے عوام تو رہے ایک طرف ،قومی دھارے میں شامل ادارے بھی کسی قاعدے قانون کو نہیں مانتے۔
اب یہی دیکھ لیجیئے کہ ملک کی دو اہم صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہوئے تینتیس روز گزر چکے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں ہی نہیں پنجاب میں بھی نگران سیٹ اپ تشکیل پا چکا ہے، جو الیکشنز کو بخیر و عافیت تکمیل تک پہنچانے کی ذمہ داری اٹھانے کو تیار ہیں لیکن الیکشن کمیشن نے بڑی مہارت سے دامن جھٹک دیا ہے۔ بقول چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ، وہ ایسے کیسے الیکشن کروا دیں؟ نہ فوج ان کی سنتی ہے اور نہ عدلیہ، اور نہ ہی حکومت خرچہ دے رہی ہے اور ان کی تو تیاری بھی نہیں۔یعنی ماضی کی طرح اس بار بھی الیکشن وقت پر ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ واضح رہے کہ ماضی میں بھی الیکشن کا یہ ”فنڈا“ ایک دو بار نہیں بلکہ تین بار ہوا ہے کہ کسی ناگہانی یا مختلف حیلوں بہانوں سے نوے دن کے اندر ہونے والے الیکشنز کو ملتوی کیا گیا۔ سب سے طویل التوا 1988 میں سامنے آیا جب قومی اسمبلی تحویل ہونے کے بعد نوے دن کی بجائے 170 دن کے بعد الیکشن کروائے گئے۔
دوسری بار وزیر اعظم نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد یہ گُل فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے کِھلایا، تاہم ان کے دور میں الیکشن کے لئے دی گئی تاریخ میں صرف ایک روز کا اضافہ ہوا۔ اس کے بعد جب 2007 میں مسلم لیگ ق کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو آئین کے مطابق جنوری 2008 میں الیکشن ہونا تھے لیکن دسمبر 2007 میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد انھیں ملتوی کر دیا گیا اور اس طرح الیکشن کے انعقاد میں تقریباً چار ہفتے کی تاخیر ہوئی۔ دیکھا جائے تو اس بار پنجاب اور خیبر پختونخوا کے الیکشن میں التوا کی بظاہر کوئی ٹھوس وجہ موجود نہیں۔البتہ پی ڈی ایم کی حکومت کے گلے میں فنانشل کرائسس کی جو ہڈی پھنس چکی ہے، اسحٰق ڈار کی ٹیم سر توڑ کوشش کے باوجود اسے نکال نہیں پا رہی اور اگر صورتحال یہی رہی تو ڈار مینجمنٹ الیکشن کمشنر کی طرف سے گرانٹ میں اضافے کی خواہش کو مینج نہیں کر پائے گی۔ اسی طرح خیبر پختون خواہ میں حالیہ بم بلاسٹ نے بھی سیکورٹی کے حوالے سے کئی خدشات کو جنم دیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کا یہ خدشہ بجا ہے کہ دہشت گردی کے خطرے کے پیشِ نظر جب تک سیکورٹی ادارے مکمل تعاون کی یقین دہانی نہیں کرواتے ہم رِسک نہیں لے سکتے۔
رہا سوال یہ کہ الیکشن، آئین کے آرٹیکل 224 کی رو سے نوے دن کے اندر ہوں گے یا نہیں؟ فی الحال اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ تاہم لاہور ہائی کورٹ کے نوے دن کے اندر الیکشن کروانے کے دو ٹوک فیصلے کے باوجود چیف الیکشن کمشنر کی باڈی لینگوئج سے یہ صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ ان کا اپریل تک الیکشن کے انعقاد کا کوئی موڈ نہیں، ویسے بھی کاغذات نامزدگی جمع ہونے اورحتمی فہرستوں کی اشاعت تک کے عمل کے لئے ڈیڑھ دو ماہ کا وقت درکار ہے اور صوبائی حکومتوں کو ختم ہوئے بھی ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔
اُدھر وزیر اعظم شہباز شریف کے معاون خصوصی عرفان قادر کی تلوار بھی حکمِ حاکم کا نعرہ لگاتے ہوئے میان سے باہر آ چکی ہے، وہ کہتے ہیں کہ نوے دن تو ایک طرف 180 دن میں بھی الیکشن ہوتے نظر نہیں آتے۔جبکہ الیکشن کمیشن کو لے کر پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کی سیاست میں جو آئے روز جوار بھاٹا ابھر رہا ہے، یہ بھی لگتا ہے اب پھٹنے کو ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما اور ان کے حوارین تو پہلے ہی اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ حکومت نہیں چاہتی الیکشن بروقت ہوں۔ دونوں صوبوں کے گورنرز کو بھی گرین سگنل کا انتظار ہے اس لئے وہ بھی تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں جبکہ چیف الیکشن کمشنر کا ماننا ہے کہ الیکشن کی حتمی تاریخ گورنر ہی دے سکتے ہیں۔ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی کیونکہ گورنر بضد ہیں کہ حتمی تاریخ کا تعین کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، خیبر پختونخواہ کے گورنر نے تو صوبے میں امن و امان کی پیچیدہ صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ چنانچہ پی ٹی آئی کی شدید خواہش اور حکومت کا تذبذب دیکھتے ہوئے اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا؟