25 حلقوں میں الیکشن کے اعلان پر عمران دوہری مشکل کا شکار

 

وفاقی حکومت کی جانب سے عمران خان کا فوری الیکشن کا مطالبہ مسترد کرنے اور الیکشن کمیشن کی طرف سے پنجاب اسمبلی کی خالی ہونے والی 25 نشستوں پر 17 جولائی کو ضمنی الیکشن کروانے کے اعلان نے تحریک انصاف کو دوہری مشکل میں مبتلا کر دیا ہے۔

عمران خان کے لئے مشکل یہ ہے کہ نئے الیکشن کا مطالبہ کرنے کے بعد ان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن کے لیے اپنے امیدوار کھڑے کریں، اگر وہ ایسا کریں گے تو اس کا مطلب اپنے نئے الیکشن کے مطالبے کی نفی کرنا ہو گا۔ یاد رہے کہ جن 25 حلقوں میں ضمنی الیکشن کا اعلان ہوا ہے وہاں سے نااہل قرار ہونے والے تمام ممبران پنجاب اسمبلی کا تعلق تحریک انصاف سے تھا جنہوں نے وزارت اعلیٰ پنجاب کے الیکشن میں حمزہ شہباز کو ووٹ دیے تھے۔

بتایا جاتا ہے کہ ان اراکین اسمبلی کے ساتھ نااہلی کی صورت میں نون لیگ کے ٹکٹ دینے کا وعدہ ہوا تھا۔ ایسے میں اگر پی ٹی آئی کے نااہل ہونے والے 25 اراکین اسمبلی نون لیگ کے ٹکٹ پر ضمنی الیکشن جیت جاتے ہیں تو یہ بھی عمران خان اور ان کی جماعت کے لیے بڑا دھچکا ہوگا۔ لہذا عمران خان دوہری مشکل میں پھنس چکے ہیں۔

سینئر صحافی طلعت اسلم انتقال کر گئے

اس سے پہلے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اعلان کیا تھا لہ پی ٹی آئی کے 25 ارکان صوبائی اسمبلی کے ڈی نوٹیفکیشن کے بعد پنجاب اسمبلی کی خالی ہونے والی 20 نشستوں پر ضمنی انتخابات 17 جولائی کو ہوں گے۔ کمیشن نے کہا تھا کہ متعلقہ حلقوں کے ریٹرننگ افسران ضمنی انتخابات کا پبلک نوٹس 31 مئی کو جاری کریں گے اور کاغذات نامزدگی 4 سے 7 جون کے درمیان وصول کیے جائیں گے۔ نامزد امیدواروں کی فہرستیں 8 جون کو جاری کی جائیں گی اور کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال 11 جون تک ہوگی۔ ریٹرننگ افسران کی جانب سے کاغذات نامزدگی منظور یا مسترد کیے جانے کے خلاف اپیلیں دائر کرنے کی آخری تاریخ 15 جون ہوگی اور اپیلٹ ٹربیونل اسی روز اس کا فیصلہ کرے گا۔ الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کے مطابق انتخابی امیدواروں کی نظرثانی شدہ فہرستیں 22 جون کو شائع کی جائیں گی اور امیدوار 23 جون تک کاغذات نامزدگی واپس لے سکتے ہیں جب کہ انتخابی نشانات 24 جون کو الیکشن لڑنے والے امیدواروں کو الاٹ کیے جائیں گے اور پولنگ 17 جولائی کو ہوگی۔

جن نشستوں پر انتخابات ہوں گے ان میں پی پی 7 راولپنڈی-2، پی پی 83 خوشاب -2، پی پی 90 بھکر-2، پی پی 97 فیصل آباد-1، پی پی 125 جھنگ-2، پی پی 127 جھنگ 4، پی پی 140 شیخوپورہ-6، پی پی 158 لاہور-15، پی پی 167، 168 اور 170 لاہور 14 اور 16، پی پی 202 ساہیوال-7، پی ہی 217 ملتان-7، پی پی 224 لودھراں-1، پی پی 228 لودھراں 5، پپ 237 بہاولنگر-1، پی پی 272 اور 273 مظفرگڑھ-5، 6، پی پی 282 لیہ-3، اور پی پی 288 ڈیرہ غازی خان-4 شامل ہیں۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے ان اراکین اسمبلی نے پنجاب اسمبلی میں پارٹی پالیسی کے خلاف جاتے ہوئے وزارت اعلیٰ کے انتخاب میں حمزہ شہباز کو ووٹ دیا تھا۔ خیال رہے 21 مارچ 2022 کو صدر عارف علوی نے تب کے وزیرِ اعظم عمران خان کے مشورے پر آئین کے آرٹیکل 63 اے کے اغراض و مقاصد، اس کی وسعت اور دیگر متعلقہ امور پر سپریم کورٹ کی رائے طلب کرتے ہوئے صدارتی ریفرنس کی منظوری دی تھی۔۔الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے 25 منحرف ارکان پنجاب اسمبلی کو ڈی سیٹ کردیا تھا جن میں مخصوص نشستوں پر کامیاب ہونے والی پانچ خواتین ارکان اسمبلی بھی شامل تھیں۔

بعد ازاں 18 مئی 2022 کو سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلے میں کہا ہے کہ منحرف رکن اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے برخلاف دیا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی روشنی میں اس فیصلے کے 2 روز بعد 20 مئی کو الیکشن کمیشن نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں حمزہ شہباز کو ووٹ دینے والے پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین صوبائی اسمبلی کے خلاف ریفرنس منظور کرتے ہوئے انہیں ڈی سیٹ کردیا تھا۔

بعد ازاں 23 مئی 2022 کو الیکشن کمیشن نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار چوہدری پرویز الہٰی کے بجائے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار حمزہ شہباز کی حمایت میں ووٹ دینے والے پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین کی صوبائی اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے کا باقاعدہ نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا تھا۔

خیال رہے آئین کے آرٹیکل 63 اے کے مطابق کسی رکن پارلیمنٹ کو انحراف کی بنیاد پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے، اس کارروائی کے لیے پارٹی کا سربراہ اسپیکر صوبائی اسمبلی اور اسپیکر الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجتا ہے، جس کے بعد الیکشن کمیشن منحرف رکن کی اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔

Related Articles

Back to top button