عمران اپنے بزرگوں بارے کون سا جھوٹ بولتے پکڑے گئے؟

سابق وزیراعظم عمران خان اپنے آبائو اجداد کے حوالے سے سفید جھوٹ بولتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں اور ان کی جانب سے اپنے بزرگوں کوعلامہ اقبال اورقائداعظم کا ساتھی ثابت کرنے کی کوشش ناکام ہوگئی جس کے بعد وہ سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے تنقید کی زد میں ہیں۔

ہوا کچھ یوں کہ عمران خان نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے ایک تصویر شیئر کی جس میں انہوں نے اس بات پہ فخر کا اظہار کیا کہ 1930 کی گول میز کانفرنس میں علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کے ہمراہ ان کے گرینڈ فادر کے بھائی زمان خان اور خالو جہانگیر خان بھی شامل تھے۔ یہ تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو عمران خان کے مخالفین نے اس پر تحقیق شروع کردی جس کے بعد یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ خان صاحب کا دعوی ٰہمیشہ کی طرح جھوٹ پر مبنی تھا۔ پہلی بات یہ سامنے آئی کہ قائد اعظم اور علامہ اقبال نے جس کانفرنس میں ایک ساتھ شرکت کی تھی وہ 1931 کی دوسری کانفرنس تھی۔ پہلی کانفرنس جو کہ 10 نومبر 1930 سے 10 جنوری 1931 تک جاری رہی اس میں علامہ اقبال کو پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کے وزیر اعلیٰ سر فضل حسین کی مخالفت کے باعث مدعو ہی نہیں کیا گیا تھا۔

دوسرا یہ وہ ہی دورانیہ ہے جب وہ مسلم لیگ کے صدر بنے اور مشہور خطبہ آلہ باد دیا جو پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے مطابق تصور پاکستان کے ظہور کا باعث بنا۔ علامہ اقبال نے یہ خطبہ 29 دسمبر 1930 بروز سوموار دیا تھا جب برطانیہ میں پہلی گول میز کانفرنس چل رہی تھی۔ اسی سال کا حوالہ عمران خان نے اپنی اس پوسٹ میں دیا جو کہ جھوٹ پر مبنی تھا۔

تاریخی حقائق کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ دوسری گول میز کانفرنس 7 ستمبر 1931 سے یکم دسمبر 1931 کو منعقد ہوئی جس میں علامہ اقبال بھی مدعو تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی تھی اور عمران خان کی جانب سے شیئر کی جانے والی تصویر بھی اسی دورانیہ کی ہے جب اقبال دوسری کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے تھے۔

اب رہی بات کہ کیا عمران خان کے گرینڈ فادر کے بھائی زمان خان اور خالو جہانگیر خان نے گول میز کانفرنس میں شرکت کی تھی یا نہیں۔ تاریخ کے صفحات کو پلٹا جائے تو عمران خان کا یہ دعویٰ سراسر غلط ہے کیونکہ اس گول میز کانفرنس میں صرف انہی افراد کو شرکت کی اجازت تھی جنہیں کہ حکومت برطانیہ نے مدعو کیا تھا۔ برطانوی حکومت نے آئینی اصلاحات کے لیے انڈیا میں بھرپور کوشش کی لیکن ہندوستانیوں کو کسی حل پہ متفق نہیں کیا جا سکا تھا۔ سائمن کمیشن کا بائیکاٹ، نہرو رپورٹ، دہلی تجاویز، قائد اعظم کے 14 نکات اسی سلسلے کی کڑی تھیں۔ آخر کار برطانیہ نے ہندوستانی نمائندوں کو لندن بلا کر انہیں کسی متفقہ حل پہ قائل کرنے کی کوشش کی۔ گول میز کانفرنس کے تین سیشن ہوئے جس میں پہلا 1930 دوسرا 1931 جبکہ تیسرا 1932 کو ہوا۔ دوسری گول میز کانفرنس میں حکومت برطانیہ نے ہر سیاسی جماعت اور ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو بلایا۔ انڈیا سے مدعو کیے جانے والے افراد کی مستند فہرست کے مطابق گورنمنٹ آف انڈیا کی نمائندگی س پی راما سوامی آئر، نریندرا ناتھ لا، رام چندرا راؤ نے کی جبکہ انڈین نیشنل کانگریس کی طرف سے واحد شریک مہاتما گاندھی صاحب تھے۔

سیاسی انتقام کے خاتمے کے لیے نیب ختم کر دینا چاہئیے

مسلمانوں کی طرف سے شامل نمائندوں میں سر آغا خان سوئم، مولانا شوکت علی خان، محمد علی جناح، اے۔ کے۔ فضل الحق، سر محمد اقبال، محمد شفیع، محمد ظفر اللہ خان، سر نواز بھٹو، عبدالقیوم خان، سر سید علی امام، مولوی محمد شفیع داودی، راجہ شیر محمد آف ڈومیلی، اے۔ ایچ غزنوی، حافظ ہدایت حسین، سید محمد بادشاہ صاحب بہادر، ڈاکٹر شفقت احمد خان، جمال محمد روتھر، خواجہ میاں روتھر، نواب صاحبزادہ سید محمد مہر شاہ شامل تھے۔

ان احباب کے علاوہ کسی انڈین کو دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے دعوت نامہ موصول نہیں ہوا تھا۔ اور یہ کوئی سیاسی جلسہ بھی نہیں تھا جس میں ہر کوئی جا سکتا تھا۔ اب اگر عمران خان کا اسرار ہے کہ ان کے خالو جہانگیر خان اور گرینڈ فادر کے بھائی زمان خان بھی مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے مدعو تھے تو انہیں کوئی ٹھوس تاریخی شہادت دینی چاہیے۔ محض تصویر شیئر کرنا اور اس میں نشاندہی کرنا گول میز کانفرنس میں شرکت کا ثبوت نہیں ہو سکتا۔ ایسے میں سوشل میڈیا صارفین عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے انھیں یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ کم ازکم تاریخی حقائق مسخ کرنے سے پہلے تحقیق تو کر لیا کریں۔

Related Articles

Back to top button