دھائیاں دیتا گنہگارعمران قوم سے معافی کب مانگے گا؟

https://youtu.be/Np_0UEY394

سینئر سیاسی تجزیہ کار اور مسلم لیگ نوں کے سینیٹر عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ آج  صدر علوی کو پے درپے خطوط ارسال کرنے والے عمران خان اگر واقعی اداروں کی پاکبازی، جمہوریت کا استحکام، مہذب سیاسی اقدار کا فروغ اور انتقامی سیاست کا خاتمہ چاہتے ہیں تو انہیں چاہیۓ کہ میڈیا پر خطاب کرتے ہوئے اپنے ماضی کے تمام گناہ تسلیم کریں اور قوم سے معافی مانگیں اِس کے بعد ہی ایک نئے عہد کی تمناّ کی جا سکتی ہے، اپنے ایک کالم میں عرفان صدیقی لکھتے ہیں کہ جو کچھ عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کرتے رہے، وہ موجودہ حکومت کو عمران اور تحریک انصاف کے ساتھ نہیں کرنا چاہئے۔‘‘

یہ ہے معصوم ہونٹوں پر تازہ گلاب کی طرح مہکنے والا وہ جملہ جو اِن دِنوں ٹیلی وژن پر جلوہ گَر دانشوروں اور میزبانوں کی زبان پر ہے۔ اِس جملے میں عفو و درگزرے پیغمبرانہ اوصافِکی خوشبو بکھری ہوئی ہے۔ بلاشبہ وطن عزیز کو ایسے مکروہات کے شیطانی چکر سے نکلنا ہوگا۔ میں خود بھی یہی سوچتا اور یہی کہتا ہوں۔ فواد چوہدری کی گرفتاری پر ایوانِ بالا میں تقریر کرتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ ’’اگر کسی نے قانون شکنی کی ہے تو ایف آئی آر درج کرکے باضابطہ طور پر قانونی کارروائی کی جانی چاہئے۔ رات گئے کسی کے گھر پر یلغار کرنا، دَھڑ دَھڑ دروازے پیٹنا،دِیواریں پھلانگنا، اہلِ خانہ کو ہراساں کرنا، دہشت گرد کے انداز میں گرفتار کرنا، ہتھکڑیاں پہنانا، منہ پر کپڑا ڈالنا، یہ سب کیا ہے؟ کیا مہذب معاشرے یہی کچھ کرتے ہیں؟ کیا جواز ہے کہ فواد چوہدری کو پہروں گاڑی میں بٹھائے رکھا گیا کہ عدالت لگے؟ میں اِس کی مذمت کرتا اور دُکھ کا اظہار کرتا ہوں۔‘‘میرے اِن کلمات پر اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے پی ٹی آئی کے ارکان نے زور دار ڈیسک بجائے۔ پھر میں نے بڑے اختصار کے ساتھ خود پر گزری واردات کی کتھا سنائی اور اپنا ایک شعر پڑھا،

فصل کانٹوں کی ہر اک کھیت میں بوتے کیوں ہو اور جب کاٹنا پڑتی ہے تو روتے کیوں ہو، عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ میرے ان الفاظ  پر پی ٹی آئی نے چُپ سادھ لی اور حکومتی ڈیسک دیر تک بجتے رہے۔ اَب دُہائی دینے والوں کو کون یاد دلائے کہ تمہارا چار سالہ دور حکومت  سیاسی مخالفین پر جبرِ ناروا کا مکروہ اور سیاہ ترین دور تھا۔ آپ ’غداری‘ سے ’کرایہ داری‘ تک ہر قانون کے فولادی کوڑے مخالفین پر برساتے اور اُن کی تذلیل سے لطف اٹھاتے رہے۔۔  خود پرستی اور خدا فراموشی کا دور تمام ہوا تو نئی حقیقتیں سینہ پھُلا کر سامنے آکھڑی ہوئیں۔ آج وہ صدر علوی کو پے درپے خطوط ارسال کررہے ہیں کہ ’’اداروں اور ایجنسیوں کو اپنی حدود میں رکھا جائے۔ اُنہیں سیاست میں مداخلت سے روکا جائے۔ اپنے حلف سے انحراف کرنے پر جنرل (ر) باجوہ کا محاسبہ کیا جائے۔‘‘ کیا خان صاحب اتنی جلدی بھول گئے ہیں کہ انہیں اقتدار میں لانے اور نواز شریف کو بے دخل کرنے کے لئے یہ ادارے، ایجنسیاں اور جنرل (ر) باجوہ کیا کیا گُل کھلاتے رہے؟ ججوں اور جرنیلوں کی دو  ”جیم‘‘ نے باہمی سہولت کاری سے، صرف آپ کے عشق میں، اچھی خاصی حکومت کو دو نیم کردیا۔

کون سا ادارہ اور کون سی ایجنسی تھی جسے اندھے عناد کی بھٹی کا ایندھن نہ بنایا گیا؟ کس تفاخر سے ’’جان اللّٰہ کو دینی ہے‘‘ والے وزیر کے ساتھ ایک باوردی اعلیٰ اہلکار کو بٹھا کر ادارے کی توہین کی گئی، عرفان صدیقی، سابق وزیر اعظم  عمران خان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا وہ بے خبر رہے کہ اُن کی ماتحت ایجنسی کا ایک اعلیٰ وردی پوش اہلکار اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک سینئر جج کے گھر جا کر کہتا ہے کہ انتخابات سے پہلے نوازشریف اور مریم کی ضمانت نہیں ہونی چاہئے ورنہ ہماری دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی؟

آج جنرل (ر) باجوہ کے مبیّنہ بیان کی تحقیقات کے لئے صدر کو خط لکھنے والے خان صاحب کو اُس وقت کیوں نہ سوجھی کہ وہ ایک ’خود سر‘ افسر کا محاسبہ کرتے؟ تب تو یہ کردار اُن کے دل میں پھول کھِلاتا رہا۔ اِس لئے کہ آئین سے انحراف اور ایجنسیوں کی خودسری کا نشانہ نوازشریف تھا۔ اُن دِنوں آئین اور اپنے حلف سے روگردانی کرنے والا یہ افسر اپنے اسی کردار کے سبب اُن کی آنکھ کا تارا بنا رہا  ۔ آج آپ جن باتوں کو گناہِ کبیرہ قرار دے کر صدر سے گرفت کرنے کی التماس کر رہے ہیں،کل انہی کار ہائے نمایاں کے صلے میں کسی کو توسیع دَر توسیع دینے اور کسی کو جگر گوشہِ خاص بنانے میں لگے تھے۔

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ عمران خان اگر واقعی اداروں کی پاکبازی، جمہوریت کا استحکام، مہذب سیاسی اقدار کا فروغ اور انتقامی سیاست کا خاتمہ چاہتے ہیں تو کسی دِن دو پرچموں کے درمیان بیٹھ کر  قوم سے ایک نئے انداز کا خطاب کریں  ’’میرے پاکستانیو! مجھے اعتراف ہے کہ میں نے پاکستان کے مسائل حل کرنے کے بجائے اپنے سیاسی مخالفین کی سرکوبی کو سب سے بڑی ترجیح بنائے رکھا۔ غلط کیا۔ میں نے اُنہیں جھوٹے مقدمات میں الجھانے، سزائیں دلوانے، جیلوں میں ڈالنے اور اذیتّیں دینے کے لئے جو کچھ کیا،وہ بھی غلط تھا۔میں نے اداروں اور ایجنسیوں کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا، بہت غلط کیا۔ میں آپ سے معافی کا طلبگار ہوں اور اُن سے بھی جو میرے اس طرزِعمل کا نشانہ بنے۔

اِس اعتراف اور معافی کے بعد ہی ایک نئے عہد کی تمناّ کی جاسکتی ہے۔  سیاست میں کسی ایک فریق سے عفو ودرگزر کے پیغمبرانہ اسوۂِ حسنہ کی توقع فضول  ہے جب کہ دوسرے فریق کی زبان آج بھی زہر میں بجھے خنجر کی طرح چلتی ہو اور وہ اپنی کارستانیوں کو اپنے نامۂِ اعمال کا حسن گردانتا ہو۔ آخر میں عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ جس سیاست کے سینے میں دِل ہی نہیں ہوتا اُس سیاست کے سینے میں ہم پیغمبروں کے سے دِل کی پیوندکاری کیسے کریں؟

عمران کا اپنے سوا سب کو جیل بھجوانے کا منصوبہ

Related Articles

Back to top button